Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

زلزلے کا جھٹکا یا سونامی؟ ماریہ میمن کا کالم

سینیٹ انتخاب نے سیاسی منظر نامے میں ہلچل مچا دی ہے (فوٹو: عمران خان فیس بک) 
پچھلا ہفتہ سیایسی طور پر ہنگامہ خیز اور سرپرائز سے بھر پور تھا۔ اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم جو کافی حد تک ڈانواں ڈول اور بیک فُٹ پر تھا اس میں جان پڑتی نظر آئی ہے۔
دوسری طرف حکمران جماعت کا اعتماد متزلزل ہوا ہے۔ اگرچہ ضمنی انتخاب میں کامیابی سے اپوزیشن  کی امیدوں پر جمی اوس تو پگھلی تھی مگر اس کو مقامی حالات اور حکومت کی انتظامی کمزوری پر محمول کیا گیا تھا۔
مگر سینیٹ انتخاب نے سیاسی منظر نامے میں ہلچل مچا دی ہے۔
ووٹنگ خفیہ ہی سہی، سینیٹ سیٹ صرف ایک ہی سہی، ہارس ٹریڈنگ کے الزامات ہی سہی، اور پھر فوراً اعتماد کا ووٹ ہی سہی، مگر اپوزیشن نے ایک نفسیاتی حد بہر حال عبور کی ہے۔
وہ حد ہے ایوان میں عددی برتری کی۔ اس کے اثرات فوری طور پر نظر آنا شروع ہو گئے ہیں اور وہ اثرات حکومت کے ڈیمیج کنٹرول موڈ  اور اپوزیشن کے جارحانہ رویے میں ظاہر ہو رہے ہیں۔ 
ان اثرات کا جائزہ لینے کے لیے اگر تھوڑا پیچھے جائیں تو ان سینیٹ انتخابات سے حکومت کو توقعات تھیں کہ قانون سازی کا رکا ہو سلسلہ چل پڑے گا۔
سیاسی میدان میں سکون کے بعد گورننس پر کام ہو گا اور حکومت کچھ نتائج دینا شروع کرے گی۔ آج البتہ صورت حال یہ ہے کہ  نہ صرف سینیٹ میں حکومتی اکثریت ابھی طے نہیں ہو پائی بلکہ قومی اسمبلی میں اس پر سوالیہ نشان لگ گئے ہیں اور دونوں ایوانوں میں چھوٹی جماعتوں کو فیصلہ کن حیثیت حاصل ہو گئی ہے۔  
چھوٹی جماعتوں کے اعتماد کا اندازہ اس سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ ایم کیو ایم ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کی خواہش مند ہے اور خالد مقبول صدیقی اعتماد کے ووٹ کے عین بعد وزیر اعظم کو ان کے وعدے یاد کرا رہے ہیں۔

سینیٹ انتخابات میں اسلام آباد کی نشست پر شکست سے حکمران جماعت کا اعتماد متزلزل ہوا ہے۔ (فوٹو: این اے ٹوئٹر)

وزیراعظم کے غصیلے اور این آر او نہ دینے کے اعلانات والے خطاب کے اگلے روز ہی چوہدری برادران بلاول بھٹو زرداری کا اپنے گھر میں سواگت کر رہے ہیں۔
خان صاحب کو مخالف ووٹ دینے والوں پر غصہ بھی پینا پڑے گا بلکہ امکان یہ ہے کہ اب چھوٹی جماعتوں کو وزراتوں میں بھی حصہ ملے گا اور اور ان کے اثرورسوخ میں اضافہ ہو گا جس کا براہ راست مطلب یہ ہے کہ حکومت کا بہ امرمجبوری ہی سہی، مگر اقتدار میں مزید شراکت دینی پڑے گی۔ 
حکومت کے لیے نازک صورتحال وفاق سے بھی زیادہ پنجاب میں ہے جہاں وزیر اعلی بزدار کا سیاسی وزن ہلکا سے ہلکا ہوتا جا رہا ہے۔ چوہدری پرویز الہی کی سینیٹ میں ن لیگ اور پی پی پی سے ایڈجسمنٹ اور تازہ تازہ مفاہمتوں سے مزید امکانات کے دروازے بھی کھل گئے ہیں۔
بلاول بھٹو نے اس کا عندیہ دیا ہے مگر ن لیگ ابھی اس کو ڈاؤن پلے ہی کر رہی ہے۔ غالباً ان کو لندن سے واضح احکامات کا انتظار ہے۔ 
ان ہی ساری سرگرمیوں کے بعد اسلام آباد میں قیافوں، اندازوں اور افوہوں کا بازار گرم ہے۔ کیا سینیٹ کا الیکشن صرف ایک زلزلے کا جھٹکا ثابت ہو گا اور کچھ ہفتے بعد حکومت اور اپوزیشن اپنی پہلے والی پوزیشن پر ہوں گے؟ یا پھر یہ زیر آب جھٹکا سونامی بن کر اردگرد کو اپنی لپیٹ میں لے گا؟ اس کا فیصلہ اگلے چند ہفتوں میں ہو جائے گا، چھوٹے چھوٹے جھٹکے البتہ جاری رہنے کا امکان ہے۔

شیئر: