Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

لاہور میں شام کے بعد مکمل لاک ڈاون لیکن تاجر ناخوش 

پاکستان کے آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں ایک مرتبہ پھر کورونا وائرس کی بڑھتی ہوئی شرح کی وجہ سے حکومت نے شام کے بعد مکمل لاک ڈاون شروع کر دیا ہے، جس پر ضلعی انتظامیہ سختی سے عمل درآمد بھی کروا رہی ہے۔ 
جبکہ شہر کے 13 علاقوں میں 24 گھنٹے سمارٹ لاک ڈاون بھی لگا دیا گیا ہے۔ 
پنجاب کے سیکرٹری صحت برائے پرائمری و سیکنڈری کیپٹن محمد عثمان کے مطابق ’لاک ڈاون کا فیصلہ کورونا کی تیسری لہرمیں شدت آنے کے باعث کیا گیا ہے۔
لاہور میں ایک دن میں ایک ہزار سے زائد کیسز بھی رپورٹ ہوئے ہیں، جو بہت زیادہ ہیں۔ اس وقت لاہور، سیالکوٹ اور راولپنڈی پنجاب کے سب سے بڑے ہاٹ سپاٹ ہیں اور یہاں جن علاقوں میں سب سے زیادہ کورونا کیسز آئے ہیں وہاں مکمل لاک ڈاون کر دیا گیا ہے۔ ہمارے پاس لاک ڈاون کے علاوہ کوئی آپشن نہیں ہے۔
12 مارچ کو حکومت کی طرف سے جاری نوٹیفکیشن کے مطابق تمام کاروباری مراکز شام چھ بجے مکمل طور پر بند کر دیے گئے ہیں۔ جبکہ ہفتے اور اتوار کو کاروبار مکمل طور پر بند رہنے کے احکامات جاری کیے گئے ہیں۔ 
اسی نوٹیفکیشن کے تحت لاہور، راولپنڈی ، سرگودھا، فیصل آباد، ملتان، گوجرانوالہ اور گجرات میں ریستورانوں اور کیفیز میں ان ڈور کھانے پر مکمل پابندی عائد کر دی گئی ہے۔
اسی طرح شادی ہال اور مارکیز کو مکمل طور پر بند کر دیا گیا ہے۔ جس سے بڑے پیمانے پر شادیوں کے شیڈول متاثر ہوئے ہیں۔ لاہور میں شادی ہالز کا کاروبار کرنے والے شوکت خان نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’حکومتی نوٹیفکیشن کے بعد شادی ہالز اور مارکیز بند کر دی گئی ہیں۔ جس کی وجہ سے آوٹ ڈور فنکشنز ہو رہے ہیں اور آوٹ ڈور انتظامات کی وجہ رش بڑھ گیا ہے۔
 انہوں نے کہا کہ ’مارچ کے مہینے میں میرے پاس 12 فنکشن تھے جو اب سب کے سب آوٹ ڈور ہوں گے۔
شوکت خان نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے مزید کہا کہ’اس سے ایک فرق یہ بھی پڑا ہے کہ لوگوں نے اپنی تاریخیں تو نہیں بدلیں البتہ اپنے مہمانوں کی تعداد کم کر دی ہیں۔ وینیو بھی ظاہر ہے تبدیل ہو گئے ہیں جس سے لوگ متاثر تو ہوئے ہیں، لیکن اب کیا کیا جا سکتا ہے۔ حکومت اپنے احکامات پر سختی سے عمل درآمد کروا رہی ہے۔
حکومت نے سماجی اور مذہبی اجتماعات میں صرف 50 افراد کے شامل ہونے کی اجازت دے رکھی ہے۔ البتہ آوٹ ڈور شادی کے فنکشنز میں تین سو افراد شریک ہوسکتے ہیں۔ 

لاہور میں ایک دن میں ایک ہزار سے زائد کیسز بھی رپورٹ ہوئے ہیں، جو بہت زیادہ ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)

شام کے چھ بجتے ہی پولیس لاک ڈاؤن پر عمل درآمد کروانا شروع ہو جاتی ہے اور تمام کاروباری مراکز بند کروا دیے جاتے ہیں۔
خیال رہے کہ لاہور سمیت دیگر شہروں میں مارچ 2020  میں پہلی مرتبہ مکمل لاک ڈاون کیا گیا تھا اور پہلے دو ہفتوں کے دوران گاڑیوں تک کو سڑک پر آنے کی اجازت نہیں تھی۔
ایک سال بعد کورونا وائرس کی شدت میں اضافے سے بڑھتے ہوئے کیسز میں ایک مرتبہ پھر جزوی لاک ڈاون سے کمی لانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ 
لاہور میں تمام تفریحی مقامات اور پارکس بھی شام چھ بجے بند کر دیے جاتے ہیں۔ سیکرٹری صحت پنجاب کیپٹن عثمان نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا ’لاک ڈاون کورونا کیسز کو کم کرنے کا سب سے موثر ہتھیار ہے۔ ہم نے پہلے بھی اسی حکمت عملی سے کورونا پر قابو پایا۔
اس سوال کے جواب میں کہ اب تو ویکسین بھی پاکستان میں آچکی ہے اس کے باوجود یہی حکمت عملی کیوں اختیار کی جا رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا ’کورونا ویکیسن ابھی تو صرف 60 سال سے زائد افراد کو لگائی جا رہی ہے۔ دوسرا جس تیزی سے تیسری لہر آئی ہے، کوئی دوسرا لائحہ عمل موجود نہیں ہے۔
اس سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا ہمارا تعلیمی نظام ہے لیکن لاک ڈاون کے بغیر کوئی چارہ نہیں۔
دوسری طرف تاجروں نے اس نئے لاک ڈاون کی سخت مخالفت کی ہے۔ تاجروں کی مختلف تنظیموں نے اس لاک ڈاون کو معاشی قتل قرار دیا ہے۔ جبکہ بعض تاجر تنظیموں نے اس لاک ڈاون کو نہ ماننے کا اعلان بھی کیا ہے۔ لیکن ابھی تک حکومت بزور طاقت اس لاک ڈاون کو کامیاب بنا رہی ہے۔

شیئر: