پرانے زمانے میں لوگ کہا کرتے تھے کہ ہمیشہ سچ کی جیت ہوتی ہے مگر آج کمپیوٹر ائزڈ دور میں یہ سب الٹ چکے ہیں
زبیر احمد پٹیل ۔ ۔ جدہ
2لفظوں پر مشتمل لفظ ”سچ“ وہ چیز ہے جو اپنے اندر وسیع طاقت رکھتا ہے مگر اسے کہتے ہوئے آج بڑے بڑوں کے پسینے چھوٹ جاتے ہیں ۔ اسے کہتے ہوئے بہت صبر اور ضبط کا دامن بھی ہاتھ میں رکھنا پڑتا ہے۔
پرانے زمانے میں لوگ کہا کرتے تھے کہ ہمیشہ سچ کی جیت ہوتی ہے مگر آج کمپیوٹر ائزڈ دور میں یہ سب الٹ چکے ہیں ۔ یہ اٹل حقیقت ہے کہ سچ ہمیشہ جیتتا رہا ہے۔ چاہے دیر سے ہی سہی۔ سچ کی سب بڑی خوبصورتی کہہ لیں کہ اسے کہتے ہوئے ہمیں کبھی خوف نہیں آتا بلکہ بعض اوقات تو سچ کہنے سے ڈرایا جاتا ہے کہ ایسا کرو گے تو یہ ہوجائیگا کیوں اپنی جان پر سچ بول کر مصیبت مول لے رہے ہو۔ خاموش رہو۔ اس طرح کے غرض یار دوست جملے کہہ کر سچ کو دبانے کی کوشش کرتے ہیں مگر انہیں یہ معلوم نہیں ہوتا کہ سچ تو سچ ہوتا ہے وہ کسی بھی روپ میں کبھی نہ کبھی سامنے آکر ہی رہتا ہے۔ آج نہ سہی مستقبل میں ۔
ہمیں چاہئے کہ ہم اپنے بچوں کو پراعتماد بنائیں اور اس کے لئے ضروری ہے کہ ہم انہیں سچ کی اہمیت سے آشنا کریں اور سچ کا سامنے کرنے کے گر سکھائیں۔ یہ ایک سچی حقیقت ہے کہ سچ کی زندگی ہمیشہ ہوتی ہے جبکہ جھوٹ کی چند روز کی ہوتی ہے۔
سچ میں بڑی طاقت ہوتی ہے اسکا اندازہ جھوٹ بولنے والے کی بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کیونکہ جب وہ سچ یا حقیقت بیان کرتے ہوئے ڈرتا ہے تب ہی وہ جھوٹ کا سہارا لیتا ہے یا اگر وہ غلطی پر ہوتا ہے اور اپنی غلطی کی پردہ پوشی کرنے لگتا ہے تب وہ اس حوالے سے جھوٹ کی کوشش کرتا ہے مگر اس کا یہ جھوٹ جس دن سامنے آتا ہے اسکی رہی سہی عزت بھی خاک میں مل جاتی ہے اور یوں اسکی رہی سہی عزت کا جنازہ بھی نکل جاتا ہے اور اگر ساتھیوں کے درمیان یہ معاملہ ہوجائے تو آئندہ کیلئے اعتبار بھی جاتا رہتا ہے۔
یہ دنیا تا قیامت رہیگی، قیامت نے آنا ہے ، ہم سب کو اس مالک حقیقی نے پیدا کیا ہے اور اسی رب کی جانب لوٹ کر جانا ہے یہ سچی حقیقت ہے اگر اسے ہم پس منظر کے طور پررکھیں تو ہمیں کبھی بھی جھوٹ بولنے کی ہمت نہیں ہوگی مگر کچھ لوگ دنیا کی چند روزہ زندگی میںاپنے آپ کو دوزخ کے عذاب میں گرفتار کرانے کیلئے جھوٹ کا سہارا لیتے ہیں جو سراسر غلط اور خسارے کا سودا ہے۔
سچ اور جھوٹ کی پہچان آج کے معاشرے میں یوں تو کرنا بہت مشکل ہے کیونکہ بہت سے لوگ اس دھٹائی سے جھوٹ بولتے ہیں اور اس تکنیک سے بولتے ہیں کہ اس پر سچ کا گمان ہونے لگتا ہے لیکن آپ محسوس کرنا چاہیں تو کرسکتے ہیں کہ جھوٹ بولتے وقت انسان کبھی بھی سامنے والے سے آنکھیں نہیں ملا پائے گا کیونکہ اس کا اندرون اسے لتاڑ رہا ہوگا کہ یہ تم کیا کررہے ہو اور وہ اپنے ضمیر کی آواز کو دبانے کی کوشش میں آنکھیں نیچے کر جاتا ہے۔
ہم آج اپنے بچوں کو شروع سے یہ تربیت تو دیتے ہیں کہ جھوٹ نہیں بولنا چاہئے سچ کا ساتھ دینا چاہئے مگر جب حقیقی زندگی کو دیکھیں تو ہم اس کے الٹ ہی کام کررہے ہوتے ہیں۔
آج کاروبار ہو یا زندگی کا کوئی بھی شعبہ ہم جھوٹ کو اس حد تک اپنے روزمرہ معمولات میں شامل کئے ہوئے ہیں کہ ہمیں خود بعض اوقات پتہ نہیں ہوتا کہ ہم یہ سچ بول رہے ہیں یا جھوٹ۔ جسکا سراسر نقصان ہمیں ہی ہورہا ہوتا ہے۔
یہ بات ہمیں معلوم ہے کہ کاروبار میں جھوٹ سے ہمیں منع کیا گیا ہے مگر ہم پھر بھی اپنی ہٹ دھرمی پر قائم ہیں۔اصل وجہ یہ ہے کہ ہم سب جھوٹ کے اتنے عادی ہوچکے ہیں کہ ہمارے کان اب سچ سننے کے عادی ہی نہیں رہے۔ اسلئے ہمیں اگر کبھی غلطی سے سچ سننے کو مل جاتا ہے تو کانوں کو برا بھی لگتا ہے۔
اصل حقیقت یہ ہے کہ سچ کو کہنا اور برداشت کرنا بھی بڑے دل گردے کا کام ہوتا ہے اور یہ ہر کسی کے بس کا روگ نہیں اور یہی آج کی کڑوی سچائی ہے۔ ہم نے اپنی زندگی کو جھوٹ کے جال میں آج اس طرح جکڑ رکھا ہے کہ اگر سچ کہیں کونے کھدرے سے اندر گھس آتا ہے تو ہماری زندگی پریشانی میں مبتلا ہوجاتی ہے ۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہم میں سے 99فیصد لوگ ہر روز کسی نہ کسی حوالے سے کم از کم ایک بار تو جھوٹ ضرور بولتے ہیں جبکہ انہیں چاہئے کہ حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سچ بولیں اور اپنے آپ کو اعتماد دیں۔ آج ہم میں اور ہمارے بچوں میں جو اعتماد کی کمی ہے اسکی سب سے بڑی وجہ سچ نہ بولنا ہے۔
کاروباری حضرات جس طرح اپنی دکان کو چار چاند اور کاروبار کو اونچے سے اونچا کرنے میں جس حد تک جھوٹ آج بولتے ہیں اس سے وہ وقتی طور پر توکامیابی دنیا میں حاصل کرلیتے ہیں مگر جب یہی سچ جب ان سے ان کے جھوٹ کا حساب لیتا ہے تو وہ کہیں کے نہیں رہتے اور معاشرے میں رہا سہا مقام بھی ختم ہوجاتا ہے۔ شاید اسی لئے جھوٹ کے پاﺅں نہیں ہوتے کہا جاتاہے۔
آج ہمارے معاشرے میں بہت سے معزز لوگ بھی اپنی زندگی جھوٹ کے سرکل میں قائم رکھے ہوئے ہیں اور جیسے ہی انہیں حقیقت کی ہلکی سی ٹھوکر لگتی ہے وہ کہیں کے نہیں رہتے اور پستیوں میں جاگرتے ہیں جو انکا مقدر ہوتی ہے۔ اسلئے ہمیں چاہئے کہ جھوٹ سے بچیں کیونکہ جھوٹ کبھی سچ نہیں بن سکتا جبکہ سچ اٹل حقیقت ہے جسے بدلا نہیں جاسکتا۔
اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہم سب کو ہمیشہ سچ بولنے کی توفیق دے کیونکہ سچ میں بڑی طاقت ہوتی ہے۔ یقین نہ آئے تو آزما کر دیکھ لیں۔
******








