Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’مانگ زیادہ لیکن تعلقات خراب‘ انڈیا میں پاکستانی ملبوسات کی نقل مقبول

انڈیا پاکستان کے درمیان غیر یقینی تعلقات کی وجہ سے پاکستانی ملبوسات کی درآمد متاثر ہونے کے بعد بازار کا خلا پُر کرنے کے لیے کپڑا تاجروں نے نقل کا سہارا لیا اور اب یہ نقل اتنی مقبول ہوگئی ہے کہ انڈیا میں انڈیا میڈ پاکستانی ملبوسات کی تجارت پھلنے پھولنے لگی ہے۔
نئی دہلی کی تاریخی جامع مسجد سے کچھ فاصلہ پر واقع بند پڑے جگت سینیما کی مخدوش دیوار پر اردو، ہندی اور انگریزی میں ایک اشتہار لگا ہوا ہے۔ لکھا ہے کہ یہاں پاکستانی طرز کے خواتین کے ملبوسات دستیاب ہیں۔
سلمان قریشی فبیہا ٹیکسٹائل کے نام سے کمپنی چلاتے ہیں، جنہیں پاکستانی ملبوسات کی نقل کرنے میں تخصص حاصل ہے۔ یہ ان کا دعویٰ ہے اور انہیں پاکستانی ملبوسات کی نقل کرنے کا کوئی رنج بھی نہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ 'اب پاکستان سے کپڑے نہیں آ رہے ہیں، خاص طور پر خواتین کے ملبوسات، اس وجہ سے ہم اس کی نقل کرتے ہیں۔ ہم نقل کرتے ہیں اور ایک اچھے مقصد کے لیے نقل کررہے ہیں، انڈیا کی چیزوں کی نقل پوری دنیا میں ہو رہی ہے۔'
سلمان قریشی نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا  کہ ’جو پاکستان ٹرینڈز ہیں اس کو ہمارے ملک میں بہت پسند کیا جاتا ہے، اسی کو مدنظر رکھتے ہوئے وہاں سے مال نہ منگوا کر ہم نے پاکستانی ملبوسات کی تیاری انڈیا میں شروع کردی ہے۔ جس کا کام گجرات کے شہر سورت میں ہوتا ہے۔ ہم ہندوستان کے اندر پاکستانی ملبوسات سپلائی کرتے ہیں۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’اگر یہی مال ہم پاکستان سے منگاتے ہیں تو مہنگا پڑتا ہے۔ تو بہتر قیمت میں اسی ڈیزائن کو کیسے فراہم کیا جائے اس پر غور کرنے کے بعد ہم نے اس کی پروڈکشن شروع کر دی۔ جس سے ہمارے ملک کا روزگار بھی بڑھے گا اور لوگوں کو کام ملے گا۔‘

انڈیا کی ریاست گجرات کا شہر کپڑے کی تجارت کا گڑھ سمجھا جاتا ہے۔ فوٹو: اردو نیوز

سلمان قریشی نے مزید بتایا کہ ’ہر جگہ کی کوئی نہ کوئی خوبی اور خاصیت ہوتی ہے۔ اگر ہم پاکستانی ٹرینڈز کی بات کریں تو مسلم اور غیر مسلم فل باڈی کپڑے پسند کرتے ہیں۔ خاص طور پر مسلم خواتین پورا جسم ڈھانپنے والے ملبوسات خریدنا چاہتی ہیں، اور ان تقاضوں کو پاکستان ملبوسات کا سٹائل پورا کرتا ہے۔ مسلم کمیونٹی کے اندر جو خواتین ہوتی ہیں وہ نماز کی وجہ سے فل باڈی ملبوسات خریدنا چاہتی ہیں۔‘
سلمان قریشی کے پاس پاکستانی سٹائل کے کئی ڈیزائن دستیاب ہیں جیسے فردوس، ماریا بی، بن سعید، توکل، یہ سب پاکستانی سٹائل کی کاپی ہیں۔
سلمان قریشی نقل کرنے کے طریقے کے بارے میں بتاتے ہیں کہ اب کیٹلاگ کلیکشن نیٹ پر دستیاب ہیں۔ سوشل میڈیا پر جو ڈیزائن دستیاب ہیں ان کی نقل کر لیتے ہیں۔
سلمان قریشی کے مطابق ’جب پاکستان سے ہمارے تعلقات اچھے تھے تب وہاں سے کپڑے آتے تھے، وہاں کے کپڑے اچھے ہوتے تھے لیکن مہنگے بھی۔ ان کے پاس اچھے ڈیزائن ہوتے ہیں۔ لیکن جب سے تعلقات خراب ہوئے تو وہ کپڑے آنے بند ہو گئے۔ لوگوں نے ان ملبوسات کو مس کیا اور لوگوں کی ضرورت کے مدنظر ہم نے یہیں پاکستانی ملبوسات بنانا شروع کر دیے۔‘

انڈیا میں پاکستانی ملبوسات کے ڈیزائن کی مانگ اب نقل بنا کر پوری کی جا رہی ہے۔ فوٹو: اردو نیوز

جامع مسجد سے فتح پوری مسجد تک جانے والے راستے میں ’شاندرار مارکیٹ‘ واقع ہے۔ یہ مارکیٹ خواتین کے فیشن کے لیے مشہور ہے۔ ہر نوع کے کپڑے دستیاب ہیں۔
مظہر مرزا تیسری نسل ہیں جو خواتین کے فیشن کے ملبوسات کی تجارت سے وابستہ ہیں۔ مارکیٹ میں جیسے ہی کوئی نیا فیشن آتا ہے تو اسے منگوا کربیچنا شروع کر دیتے ہیں۔ وہ لکھنوی امبرائڈری، سورت کے ڈریسز کے علاوہ پاکستانی ملبوسات بیچتے ہیں۔ ان کے مطابق پاکستانی ملبوسات میں کاٹن یا شفون چلتا ہے اور لان وغیرہ جیسے سوٹ ہوتے ہیں۔ وہاں کی کاٹن اچھی ہوتی ہے اور ڈیزائنر پیس ہوتے ہیں۔ لیکن اب انڈیا میں بھی کوالٹی اچھی ہے۔
ان کے مطابق جہاں تک بات ہے فیشن کی تو پاکستان میں اس طرح کا فیشن پہلے آ جاتا ہے۔ باقی ان کے فیشن میں اور ہمارے فیشن میں تھوڑا فرق ہے۔ ہمارے یہاں دستی امبرائڈری زیادہ ہے ان کے یہاں مشین ورک ہے۔ انڈیا میں لکھنو کی امبرائیڈری مشہور ہے۔ پاکستانی سوٹ کی کاپی انڈیا میں ہو رہی ہے اور وہ بھی چلن میں ہے۔ پاکستان میں انڈیا کی کاپی بہت ہوتی ہے جیسے فلمی سٹائل کی کاپی ہے۔

تاجروں کے مطابق پاکستانی ملبوسات کی نقل تیار کرنا اب مجبوری ہے۔ فوٹو: اردو نیوز

لال قلعہ کے سامنے مینا بازار میں بھی پاکستانی ملبوسات کی کئی دکانیں ہیں جہاں خصوصی طور پر پاکستانی سٹائل کے کپڑے ملتے ہیں۔ ان سب دکانوں میں پاکستانی ملبوسات کی نقل فروخت ہورہی ہیں۔ یہاں چاروں طرف چمک دار رنگ، کوالٹی اور ڈیزائن کے کپڑے بہت ہی پرکشش معلوم ہوتے ہیں۔
 فی الحال بازار میں مندی ہے۔ مینا بازار میں خواتین ملبوسات کے تاجر محمد رحمان کا کہنا ہے کہ یہاں پرانی دہلی میں سبھی طرح کے فیشن رائج ہیں۔ ساڑھی بھی پہنتے ہیں، شلوار سوٹ بھی، لہنگے اور غرارے بھی۔ حالانکہ محمد رحمان کی دکان پاکستانی ملبوسات کے لیے مشہور ہے تاہم وہ کہتے ہیں کہ وہ انڈین کپڑے بیچتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ یہ ملبوسات کسی ملک کے فیشن کی نقل ہوتے ہیں۔ وہ اپنے کپڑوں کو پاکستانی ملبوسات کہنے سے گریز کرتے ہیں۔
ان جیسے کئی تاجر ہیں جو اپنی دکانوں میں پاکستانی ملبوسات (نقل) فروخت کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انڈیا میں پاکستانی ملبوسات کا رواج ہے، تعلقات خراب ہیں اور وہاں سے کپڑے آ نہیں سکتے تو نقل کر کے فروخت کرنے پر مجبور ہیں۔

شیئر: