سپریم کورٹ آف پاکستان نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی و سابق وزیر اعظم عمران خان کی نو مئی کے آٹھ مقدمات میں ضمانت منظور کر لی ہے۔
مزید پڑھیں
جمعرات کو چیف جسٹس پاکستان یحییٰ آفریدی کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔
چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے زبانی فیصلہ سناتے ہوئے سابق وزیر اعظم کی آٹھ مقدمات میں ضمانت منظور کرتے ہوئے رہائی کا حکم دے دیا۔
یاد رہے کہ ان آٹھ مقدمات میں ضمانت ملنے کے باوجود عمران خان جیل سے رہا نہیں ہو سکیں گے کیونکہ انھیں ایک سو نوے ملین پاؤنڈ میں چودہ سال قید کی سزا ہو چکی ہے۔
جبکہ توشہ خانہ ٹو میں ان کی گرفتاری ظاہر کی جاچکی ہے۔ ایک سو نوے ملین پاؤنڈ کے مقدمے کے فیصلے کو عمران خان کے وکلا نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کر رکھا ہے۔
آج کی سماعت
دوران سماعت سپیشل پراسیکیوٹر ذوالفقار نقوی نے عدالت کو بتایا کہ ’کل طبیعت ناسازی کے باعث پیش نہیں ہو سکا‘، جس پر چیف جسٹس نے ’کہا کوئی بات نہیں۔‘
سپیشل پراسیکیوٹر ذوالفقار نقوی نے دوران سماعت دلائل دیتے ہوئے کہا کہ نو مئی کے واقعات کے احکامات عمران خان نے دیے تھے۔
انھوں نے کہا کہ یہ آٹھ مقدمات انسداد دہشت گردی کی عدالتوں میں زیر سماعت ہیں، دو سال سے مخلتف عدالتوں نے ان کی ضمانت کی درخواستیں مسترد کی ہیں۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ عدالت مقدمے کے ٹرائل میں نہیں جائے گی اور صرف ضمانت کی حد تک معاملے کو دیکھے گی۔

انھوں نے پراسیکیوٹر سے استفسار کیا کہ اس سے مقدمے میں عمران خان کے خلاف کون سے ثبوت ہیں جس پر عدالت کو بتایا گیا کہ اس معاملے میں تین گواہان کے بیانات بھی ریکارڈ پر موجود ہیں۔
عدالت نے استفسار کیا کہ اس سے پہلے سابق سینیٹر اعجاز چوہدری کی بھی نو مئی کے مقدمے میں ضمانت منظور کی تھی اور اب پراسیکوشن یہ بتائے کہ یہ کیس اعجاز چوہدری کے کیس سے الگ کیسے ہے؟
پراسیکوشن اس معاملے میں عدالت کو تسلی بخش جواب نہ دے سکے۔
پراسیکیوٹر کا کہنا تھا کہ عمران خان نے پولی گرافک ٹیسٹ بھی نہیں دیا اس لیے وہ ضمانت کے مستحق نہیں ہیں۔
بینچ میں موجود جسٹس اظہر حسن رضوی نے پراسیکوشن سے استفسار کیا کہ کیا اعجاز چوہدری نو مئی کے واقعات میں موقع پر موجود تھے جس پر پراسیکوٹر نے جواب دیا کہ وہ اس بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتے۔
عدالت نے پراسیکیوٹر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ان کے پاس بنیادی معلومات ہی نہیں ہیں۔
