Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اے این پی کے بعد پیپلز پارٹی بھی الگ، پی ڈی ایم کا اب مستقبل کیا؟

سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر کے معاملے پر پی ڈی ایم میں اختلافات پیدا ہوگئے تھے۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان پیپلز پارٹی نے پی ڈی ایم کی جانب سے شوکاز نوٹس بھیجنے کے ردعمل میں اپوزیشن اتحاد کی سٹیئرنگ کمیٹی اور دیگر عہدوں سے مستعفی ہونے کا اعلان کر دیا ہے۔ جس کے بعد اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد کے مستقبل کے بارے میں سوالات سامنے آ رہے ہیں۔ 
تجزیہ کار افتخار احمد کے مطابق پی ڈی ایم کا وجود ختم نہیں ہوگا لیکن اب وہ آٹھ جماعتوں کا اتحاد رہ جائے گا۔ پیپلز پارٹی اور اے این پی مزید اس اتحاد کا حصہ نہیں ہوں گی۔ 
اردو نیوز سے گفتگو میں انھوں نے کہا کہ 'پی ڈی ایم میں شامل دیگر جماعتوں نے پیپلز پارٹی سے جواب طلبی کا فیصلہ سوچ سمجھ کر ہی کیا تھا۔ اب جب پیپلز پارٹی کا رویہ یہ ہے تو وہ بھی اپنے موقف سے پیچھے نہیں ہٹیں گی۔' 
ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ 'مجھے نہیں پتہ کہ پی ڈی ایم میں دراڑ پڑ گئی ہے یا نہیں البتہ مجھے یہ معلوم ہے کہ پیپلز پارٹی اب نکل چکی ہے اور اے این پی کے ساتھ جائے گی۔ پی ڈی ایم اب آٹھ جماعتوں کا ایک اتحاد رہ جائے گا۔' 
تجزیہ کار سلمان غنی نے پیش گوئی کی کہ پی ڈی ایم کا کوئی مستقبل نہیں ہے۔ 
اردو نیوز سے گفتگو میں انھوں نے کہا کہ 'پیپلز پارٹی مزاحمتی جبکہ ن لیگ مفاہمت پسند جماعت تھی لیکن اب ان دونوں کے کردار تبدیل ہو چکے ہیں۔ بلاول بھٹو زرداری نے اے پی سی بلائی تھی جس میں پی ڈی ایم بنانے کا فیصلہ کیا گیا۔ پی ڈی ایم کے تمام فوائد بھی پیپلز پارٹی نے حاصل کیے ہیں۔ اس وقت آصف زرداری کے خلاف مقدمات، اومنی گروپ، ٹھیلے والے اور باقی تمام مقدمات کا شور ختم ہوگیا ہے اور اب جہانگیر ترین پھنس گیا ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’اسٹیبلشمنٹ اس ملک کی سب سے بڑی سیاسی حقیقت ہے۔ اس وقت ایک اور منصوبے پر کام ہو رہا ہے جو پائپ لائن میں ہے کہ پنجاب میں ن لیگ ک راستہ روکنے کے لیے 2023 کے انتخابات میں پیپلز پارٹی، تحریک انصاف اور ق لیگ کا اتحاد بن سکتا ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ 'پی ڈی ایم کو موجودہ شکل میں کوئی مستقبل نہیں بلکہ وہ ایک نئی انتخابی الائنس کی شکل اختیار کرلے گا جس میں پی ڈی ایم شامل دیگر جماعتیں موجود ہوں گی۔ اس الائنس سے پیپلز پارٹی کو پریشانی ہو سکتی ہے کیونکہ اندرون سندھ میں جمعیت علمائے اسلام ف کا بڑا ووٹ بینک ہے۔ 2018 کے انتخابات میں 16نشستیں ایسی تھیں جہاں جے یو آئی ف دوسری نمبر تھی۔ کراچی میں ن لیگ ، جے یو آئی اور دیگر جماعتیں مل کر الیکشن لڑیں گی تو نقصان پیپلز پارٹی کا ہوگا۔' 
سیاسی تجزیہ کار پروفیسر نعیم مسعود کا کہنا ہے کہ 'پی ڈی ایم سیاسی اتحاد تھا نہ کہ انتخابی اتحاد، پہلی بات یہ کہ اس اتحاد کو نبھانا چاہیے تھا۔ اس اتحاد کا مقصد جمہوریت کو تقویت دینا تھا ناں کہ حکومت گرانے پر زور دیتے۔ ماضی میں حکومتیں گرانے کا نقصان جمہوریت ہی کو ہوا ہے۔' 

تجزیہ کار سلمان غنی نے پیش گوئی کی کہ پی ڈی ایم کا کوئی مستقبل نہیں ہے۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

انھوں نے کہا کہ 'پیپلز پارٹی کو اگرچہ باپ پارٹی سے ووٹ نہیں لینا چاہیے تھا تو دوسری جانب ن لیگ جیسی جماعت کو شوکاز نوٹس جاری نہیں کرنا چاہیے تھا۔ نوٹس جاری ہو بھی گیا تھا تو ن لیگ کو پیپلز پارٹی کو روکنا چاہیے تھا اور پیپلز پارٹی کو جانا نہیں چاہیے تھا۔ مسلم لیگ نون کا شوکاز نوٹس جاری کرانا اور پیپلزپارٹی کا پی ڈی ایم کے عہدوں سے مستعفی ہونا غیرسیاسی و غیر دانشمندانہ اقدام ہے دونوں جلد رجوع کریں گے۔' 
مستقبل کے حوالے سے انھوں نے کہا کہ 'پی ڈی ایم کے مستقبل کا انحصار حکومتی کارکردگی اور اپوزیشن کے ساتھ سلوک پر ہے۔ میرے خیال میں کم از کم ایک ماہ اور زیادہ سے زیادہ تین ماہ میں ن لیگ اور پیپلز پارٹی دوبارہ بیٹھیں گے اور پی ڈی ایم بحال ہوگی۔ صرف یہی نہیں بلکہ پی ڈی ایم جماعتوں کے درمیان قومی اسمبلی کی نشستوں پر سیٹ ایڈجسٹمنٹ بھی ممکن ہے۔' 
 

شیئر: