Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پیپلزپارٹی پی ڈی ایم سے دُور ہو رہی ہے یا نکلنے پر مجبور کیا جارہا ہے؟

اپوزیشن اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) میں اسمبلیوں سے استعفوں کے معاملے پر اختلاف اور لانگ مارچ کے التوا کے اعلان کے بعد یہ تاثر مضبوط ہو رہا ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) شاید زیادہ دیر تر اتحاد کا حصہ نہ رہ سکے۔
گو کہ منگل کے اجلاس کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی نے اپنی مرکزی مجلس عاملہ سے استعفوں کے معاملے پر دوبارہ مشاورت کے لیے وقت مانگا ہے مگر پارٹی سربراہ آصف زرداری کی جانب سے نواز شریف کی واپسی کے مطالبے اور ان پر طنز نے اتحاد میں دراڑیں بہت وسیع کر دی ہیں۔
پی ڈی ایم میں اختلافات کا واضح مظاہرہ منگل کو بھی دیکھنے میں آیا جب مولانا فضل الرحمان نیوز کانفرنس ادھوری چھوڑ کر چلے گئے۔

 

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اتحاد میں دراڑ کی ذمہ دار پیپلز پارٹی ہے جس نے باقی نو جماعتوں کی جانب سے استعفے دینے کے فیصلے کو نہیں مانا یا وہ جماعتیں ہیں جنہوں نے یہ جانتے ہوئے بھی کہ پیپلزپارٹی استعفوں کی مخالفت کرچکی ہے اس مطالبے پر ہی اصرار کیا؟

مسلم لیگ ن اور جے یو آئی نے غلط اندازہ لگایا؟

اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے تجزیہ کار اور سینیئر صحافی مجیب الرحمان شامی کا کہنا ہے کہ ’پیپلز پارٹی کی پوزیشن شروع سے ہی واضح تھی کہ وہ استعفے نہیں دینا چاہتی پھر بھی ن لیگ اور جمعیت علمائے اسلام نے اسے مجبور کیا جس پر پیپلز پارٹی نے ردعمل دیا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’بہت شدت سے پیپلز پارٹی پر دباؤ ڈالا گیا۔ پہلے مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ استعفوں کے بغیر لانگ مارچ کا فائدہ نہیں پھر باقی لوگوں نے استعفوں کو لانگ مارچ سے جوڑ دیا۔‘
مجیب الرحمان شامی کے مطابق ’حالانکہ ان کے پاس آپشن تھا کہ اتحاد کو بچاتے اور ابھی ڈھیلے ڈھیلے چلتے کیونکہ ابھی ویسے بھی کورونا وبا کے باعث سیاسی سرگرمیوں سے گریز ممکن تھا۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’باقی جماعتوں نے جلد بازی سے کام لیا اور اتنا پریشرائز کیا کہ وہ مقابلے میں کھڑے ہو گئے تاہم ان کا اندر سے معاملہ اور تھا۔‘

پی ڈی ایم میں اختلافات کا مظاہرہ اس وقت دیکھنے میں آیا جب مولانا فضل الرحمان نیوز کانفرنس ادھوری چھوڑ کر چلے گئے (فوٹو: اے ایف پی)

اس سوال پر کہ لانگ مارچ ملتوی کرکے کیا مسلم لیگ ن اور جے یو آئی کا مقصد پیپلز پارٹی کو بے نقاب کرنا تھا مجیب الرحمان شامی کا کہنا تھا کہ ’اس سے پی ڈی ایم کو کیا فائدہ ہو گا؟‘
انہوں نے کہا کہ ’شاید ان دو جماعتوں سے اندازے کی غلطی ہو گئی انہوں نے سمجھا کہ موجودہ سیاسی صورت حال میں اگر  وہ دباو ڈالیں گے تو پیپلز پارٹی مان جائے گی۔‘
تاہم مسلم لیگ ن کی ترجمان مریم اورنگزیب کا کہنا تھا کہ ’ان کی جماعت نے استعفوں پر اصرار اس لیے کیا کہ ان کے بغیر لانگ مارچ کا کیا فائدہ ہوتا؟ ان کا کہنا تھا کہ ’استعفے دینے سے حکومت دباؤ میں آجاتی اور اسے نئے انتخابات کروانا پڑتے۔‘
اس سوال پر کہ کیا ان کی جماعت نے اصرار اور ضد کرکے پیپلز پارٹی کو ناراض کیا ہے ان کا کہنا تھا کہ ’ایسا نہیں ہے بلکہ یہ فیصلہ نو سیاسی جماعتوں کی سیاسی دانشمندی ظاہر کرتا ہے۔ پی ڈی ایم اتحاد ابھی بھی بچا ہوا ہے اسے کچھ نہیں ہوا جمہوری جماعتیں اپنا موقف پیش کرتی ہیں۔‘

پیپلز پارٹی نے حالات سے سمجھوتہ کرلیا ہے

سیاسی تجزیہ کار سلمان غنی کا کہنا تھا کہ ’سابق صدر آصف علی زرداری تاش کے پتے سینے سے لگا کر کھیلتے ہیں۔ آج کی پیپلز پارٹی ذوالفقار علی بھٹو یا بے نظیر بھٹو کی پارٹی نہیں بلکہ یہ آصف زرداری کی پارٹی ہے جس نے حالات سے سمجھوتہ کر لیا ہے اور اسٹیبلشمنٹ سے مل کر چلنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’جب چھ ماہ قبل پی ڈی ایم بنی تو سندھ حکومت دباؤ کا شکار تھی اور آصف زرداری کے خلاف شکنجہ کسا جا رہا تھا تاہم انہوں نے پی ڈی ایم کا کندھا استعمال کیا اور اب وہ اس صورت حال سے نکل چکے ہیں۔ اب ان کی نظریں اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مل کر اگلے الیکشنز پر ہیں۔‘
سلمان غنی کے مطابق وہ مصدقہ طور پر جانتے ہیں کہ ’مسلم لیگ ن کی اکثریت بھی استعفے دینے کے حق میں نہیں تھی۔ مسلم لیگ ن بھی مزاحمتی جماعت نہیں ہے۔ دونوں بڑی جماعتیں بڑے فیصلے سوچ سمجھ کر کرتی ہیں اس حد تک پی پی پی نے درست فیصلہ کیا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’مولانا فضل الرحمان ذاتی لڑائی لڑ رہے ہیں تاہم انہیں بھی سیاسی طرز عمل اختیار کرنا چاہیے ان کا کل کا عمل سیاسی نہیں تھا جس میں وہ نیوز کانفرنس چھوڑ کر چلے گئے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’آصف زرداری نے منگل کے اجلاس میں نواز شریف پر طنز کرکے اسٹیبلشمنٹ کو پیغام دیا ہے۔اصل بات یہی تھی۔‘

شیئر: