Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

آپ ﷺ کا حلم ،آپﷺ کے غصے پر غالب

 میں نے نبوت کی تمام صفات آپ میں دیکھ لی تھیں، 2 صفتیں باقی رہ گئی تھیں، آج میں نے ان کا بھی مشاہدہ کرلیا 

 
عبدالمالک مجاہد۔ ریاض
 
قرآن کریم میں اللہ کے رسول کی ایک بہت بڑی خوبی یہ بیان کی گئی ہے: ’’یہ اللہ کی خاص رحمت ہے کہ آپ لوگوں کے لئے نرم خو ہیں، اگر آپ ترش رو اور سخت دل کے مالک ہوتے تو لوگ آپ سے بھاگ جاتے‘‘۔
 
جب ہم سیرت سرو رعالم  کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے لوگوں کے دلوں کو کیسا جیتا۔ آپ کا اپنے صحابہ ؓکے ساتھ تعلق اور برتاؤ اس طرح کا تھا کہ آپ کا ہر ساتھی یہ محسوس کرتا کہ میں اللہ کے رسول کا سب سے زیادہ قریبی ہوں اور آپ مجھ سے ہی زیادہ محبت کرتے ہیں۔ اعلیٰ اخلاق کی بدولت لوگوں کے کام، ان کی مدداور مشکلات میں ان کے ساتھ تعاون کرکے کوئی بھی شخص اپنی قوم کا قائد بن سکتا ہے۔ اسلام سے پہلے جہالت کادور دورہ تھا۔ ظلمت عام تھی، غریبوں اور فقیروں کے ساتھ ظلم عام سی بات تھی۔ غلاموں کا کوئی پرسان حال نہ تھامگر اس کے باوجود بعض شخصیات کسی پر ظلم ہوتا نہیں دیکھ سکتی تھیں۔ عبداللہ بن جدعان، سیدنا ابو بکر صدیقؓ کے خاندان سے تعلق رکھتا تھا، یہ نہایت امیر شخص تھا۔ وہ لوگوں کے کام آتا ،ان کو کھانا کھلاتا، صلہ رحمی کرتا،کسی کو مدد کی ضرورت ہوتی تو پیش پیش رہتا تھابلکہ رات کے وقت اس کے کارندے مکہ میں اعلان کرتے تھے کہ ابن جدعان کی دیگ کی طرف آؤ۔
 
ایک مرتبہ یمن کے علاقے زبید سے ایک تاجر اپنی بیٹی کے ہمراہ مکہ آیا ہوا تھا، اس تاجر کا سامان عاص بن وائل نے خرید لیا۔ عاص بن وائل مکہ کا بڑا چوہدری تھا۔ اسے یقین تھا کہ کوئی اس کے خلاف نہ تو گواہی دے گا اور نہ ہی اس کے خلاف اٹھے گا۔ عاص نے زبیدی کا حق روک لیا اورمطالبہ کرنے کے باوجوددینے سے انکار کردیا۔اس نے اپنے حلیف قبائل عبدالدار، مخزوم، جمح، سہم اور عدی سے مدد کی درخواست کی لیکن سب نے انکار کردیا۔وہ مایوس ہوکر جبل ابوقبیس پر چڑھ گیا اور بلند آواز سے اشعار پڑھنے لگا جس میں اس نے دہائی دیتے ہوئے اپنی مظلومیت کی داستان بیان کی۔ اس کی درد بھری داستان سن کر ایک ہاشمی نوجوان زبیر بن عبدالمطلب کو جوش آگیا۔ یہ اللہ کے رسول  کا چچا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے ہوتے ہوئے مکہ میں اس طرح لوگوں پر ظلم روا نہیں رکھا جا سکتا۔ انہوں نے اپنی کوشش سے عبداللہ بن جدعان کوساتھ ملایا اور پھر اسی کے گھر پر بنی ہاشم، بنی مطلب، بنی اسد بن عبدالعزی، بنی زہرہ بن کلاب اور بنی تیم بن مرہ کے سرکردہ لوگوںکو جمع کیا۔آپس میں عہد وپیمان ہوا کہ مکہ میں جو بھی مظلوم نظر آئے خواہ وہ مکے کا رہنے والا ہو یا کہیں اور کا ، ہم سب اس کی مدد اور حمایت میں اٹھ کھڑے ہونگے اوراس کاحق دلواکر ہی رہیں گے۔ اس معاہدے کو’’ حلف الفضول‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ سیدالانبیاء محمد  بھی اس اجتماع میں تشریف فرماتھے۔
 
 غریبوں کی مدد کرنا کسی بھی شخص میں اعلیٰ اخلاق وصفات کی دلیل ہے۔ اللہ کے رسول  تو خلق عظیم کے مالک تھے اسی لئے جب آپ  شرف رسالت سے مشرف ہوئے تو آپ  فرمایا کرتے تھے کہ میں عبداللہ بن جدعان کے مکان پر ایک ایسے معاہدے میں شریک تھا جس کے عوض مجھے سرخ اونٹ بھی پسند نہیں۔ اگر اب دورِ اسلام میں مجھے اس قسم کے معاہدے کے لئے بلایا جائے تو اس پر ضرور لبیک کہوںگا۔
 
 معزز قارئین! ایسا کیوں نہ ہو ،اسلام تو سراپا دین ِرحمت ہے۔ وہ لوگوں کو معاف کرنے کی تلقین کرتا ہے۔خود اللہ تعالیٰ کی صفات میںرحیم، رؤف، کریم اور الرحمن الرحیم شامل ہیں۔ اللہ کے رسول نبوت سے پہلے بھی انہی اعلیٰ اخلاق کے مالک تھے جس کی گواہی ہماری اماں جان سیدۃالنساء العالم خدیجہ الکبریؓ نے بھی دی تھی۔پہلی وحی رمضان کے مبارک مہینہ میں غار حرا میں نازل ہوئی، یہ واقعہ غیر معمولی تھا۔ جب آپ گھر تشریف لائے تو بے حدگھبرائے ہوئے تھے، سیدہ خدیجہؓ سے فرمایا: مجھے چادر اوڑھا دو، مجھے چادر اوڑھادو۔
 پھر آپ نے سیدہ خدیجہ ؓ  کو سارا واقعہ سنایااور فرمایا: مجھے اپنی جان کا ڈر ہے۔
لیکن سیدہ خدیجہ ؓنے آپ کے اعلیٰ اخلاق کی جو گواہی دی، ان الفاظ کو پڑھئے اور غور کیجئے ۔ سیدہ فرماتی ہیں :’’ قطعاً نہیں۔ بخدا! اللہ تعالیٰ آپ  کو کبھی رسوا نہیں کرے گا۔ آپ( )صلہ رحمی کرتے ہیں، کمزوروں کا بوجھ اٹھاتے ہیں، مصیبت میں پھنسے ہوئے لوگوں کی مدد کرتے ہیں۔ مہمانوں کی میزبانی کرتے ہیں اور حق کی راہ میں آنے والے کی مصائب پر اعانت کرتے ہیں‘‘۔
 
قارئین کرام! یہ ہیں ایک اعلیٰ اخلاق کے حامل شخص کی خوبیاں کہ وہ سراپا خیر ہوتا ہے۔ وہ ہر وقت لوگوں کے ساتھ بھلائی کے لئے بہانے تلاش کرتا ہے۔ اس لحاظ سے دیکھاجائے تو رسول اللہ کی زندگی ایسے کتنے ہی واقعات سے بھری پڑی ہے۔ آپ  صرف اپنی امت کے لئے ہی نہیں بلکہ جو لوگ اپنی امت میںشامل نہیں ان کے لئے بھی بڑے خیر خواہ تھے۔ 
 مدینہ منورہ میں ایک نو عمر یہودی لڑکا اللہ کے رسول کی خدمت کیا کرتا تھا۔ آپ کے لئے وضو کے پانی کا لوٹا رکھتا، پاپوش مبارک سیدھا کرتا اور دیگر چھوٹے موٹے کام کرتا تھا۔ وہ لڑکا اللہ کے رسول کے پاس چند دن نہ آیا تو آپ نے معلوم کروایا کہ وہ کہاں ہے؟معلوم ہوا کہ وہ تو بیمار ہے۔ امت کی سب سے معزز ترین شخصیت اس ادنیٰ خدمت گزار کے گھر  تیمار داری کے لئے تشریف لے گئے اور اس کے سرہانے بیٹھے، اس کے والد بھی وہاں موجود ہیں۔ یہ عزت وشرف کوئی معمولی بات نہیں کہ اللہ کے رسول  بنفس نفیس اس یہودی کے گھر میں تیمار داری کے لئے موجود ہیں۔وہ شفیق اور رحیم نبی دیکھ رہے ہیں کہ اس لڑکے کا آخری وقت ہے ، جان کنی کا عالم ہے، دنیا کو الوداع کہنے والا ہے۔ اس کی زندگی کے آخری لمحات میں اللہ کے رسول اس کے ساتھ خیر خواہی اور بھلائی فرما رہے ہیں۔ اس کی آخرت کی فکر دامن گیر ہے کہ آخری لفظ ’’ لاالہ الا اللہ‘‘ سے وہ جنت کا مستحق ہوجاتا۔کائنات کے امام اس یہودی لڑکے کو اسلام کی دعوت دے رہے ہیں،ا رشاد فرمایا: کہو ’’اشہد ان لا الہ الا اللہ وانی رسول اللہ‘‘ 
 
وہ نو عمر لڑکا ایک مربی اور محسن کی زبان سے اپنی ہمدردی اور خیر خواہی کے کلمات سن رہا ہے۔ وہ اس عظیم شخصیت کا پہلے سے گرویدہ تھا اور تیمار داری کے لئے بنفس نفیس اس کے گھر آکر اسے مزید عزت اور شان بخشی تھی۔ وہ تو آپسے محبت کرتا تھا مگر وہ ابھی اپنے والد کی کفالت اور حصار میں تھا۔اس نے اپنے والد کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا۔ گویا اپنے باپ سے اسلام قبول کرنے کی اجازت مانگ رہا ہو۔ اللہ کے رسول نے اسے پھر اسلام کی دعوت دی۔ اس کے باپ نے کہا:’’ اباالقاسم ( )کی بات مان لو اور جو کچھ محمد( )نے کہا ہے اسے کہہ دو‘‘۔
 
اس لڑکے کی زبان سے ’’ اشہد ان لا الہ الا اللہ وانک رسول اللہ‘‘ کے کلمات نکلے، اور پھراس کی جان قفس عنصری سے کوچ کرگئی۔ اللہ کے رسول اس لڑکے کے حسن خاتمہ پر بڑے خوش ہوئے اور زبان اقدس سے کہنے لگے:’’ اس اللہ کا شکر ہے جس نے میری وجہ سے اسے جہنم کی آگ سے بچا لیا‘‘۔
 پھر اپنے ساتھیوں کی طرف متوجہ ہوئے اور انہیں حکم دیا :’’ اپنے بھائی کی نماز جنازہ پڑھو‘‘۔
یہ تھی نبی کریم کی خیر خواہی۔ ذرا غور کریں اِس واقعہ کے اندر کتنے اسباق پنہاں ہیں۔ اللہ کے رسول کے بارے میںاللہ تعالیٰ نے جو فرمایا ہے’’ وما ارسلناک الا رحمۃ للعالمین‘‘ بالکل درست ہے۔ 
 
تقریباً 3 سال قبل مدینہ طیبہ میں مجھے ایک سعودی دوست ڈاکٹر عبدالرحمن کے گھر جانے کا اتفاق ہوا۔ ڈنمارک کے دل آزار خاکوں کی باز گشت ابھی سنائی دے رہی تھی۔ ڈاکٹر عبدالرحمن کہنے لگے کہ عبدالمالک ذرا غور کرو کہ اگر کوئی شخص تمہارے گھر میں آکرتم سب گھر والوں کو گالیاں دے، برا بھلا کہے اور تمہاری موت کی تمنا کرے تو تمہارا کیا رد عمل ہوگا۔ جواب بڑا واضح تھا کہ ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ کوئی شخص میرے گھر آکر اتنی بڑی گالی دے اور پھر وہ صحیح سالم واپس چلا جائے؟ اس سے بڑی کوئی بد تمیزی بھی ہوسکتی ہے کہ کوئی موت کی بدعا دے ؟آدمی کتنا بھی حلیم الطبع کیوں نہ ہووہ ایسے الفاظ برداشت نہیں کرسکتا۔
 
 مگر میرے رسول  کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ آپ کے بارے میں2 صفات کا تذکرہ تَورات شریف میں یوں موجود ہے: ’’آپ( )کا تحمل آپ() کے غصہ پر غالب ہوگا‘‘۔
 دوسری صفت:’’ اُن سے شدید جہالت کے سلوک کے باوجود ان کے حلم میں اضافہ ہی ہوتا چلا جائے گا‘‘۔
قارئین کرام کو وہ واقعہ یقینا یاد ہوگا جب کچھ یہودی اللہ کے رسول کے گھر آئے اور کہنے لگے: ’’السام علیک‘‘ اس کا معنیٰ ہے (معاذ اللہ) آپ() کو موت آئے۔ اب دیکھئے! وہ آپ کے گھر میں آکر آپ اور آپ کے گھر والوں کو گالی دے رہے ہیں۔قربان جایئے اس نبی کریم کے حلم اور حوصلہ پر کہ آپ نے صرف اتنا کہا: ’’وعلیکم‘‘ ام المؤمین سیدہ عائشہ ؓ گھر میں تھیں۔ انہوں نے یہودیوں کے کلمات سنے تو غصہ سے بھڑک اٹھیں، آخر صدیق کی بیٹی جو تھیں اس لئے اللہ کے رسول کے خلاف یہ بات برداشت نہ کرسکیں۔ ان کو جواب دینے لگیں لیکن اللہ کے رسول نے فرمایا: عائشہ رک جاؤ! ان کو برا بھلا نہ کہو۔ کہنے لگیں کہ اللہ کے رسول() ! دیکھیں تو سہی یہ آپ( )کو کیا کہہ رہے ہیں؟ اگر آج کا کوئی حاکم ہوتا تو ان ہرزہ سرائی کرنے والوںکو قتل کرواکر نشان عبرت بنا دیتا مگر یہاں پر رد عمل صرف ’’وعلیکم‘‘ (یعنی تم بھی ) تھا۔
 
اللہ کے رسول میں کتنا حلم، حوصلہ اور غصے پر قابو پانے کے خصائل تھے اس کا اندازہ ہم مندرجہ ذیل واقعہ سے لگا تے ہیں۔
 
 زید بن سعنہ ایک یہودی عالم تھا۔ اس نے رسول اللہ کی مذکورہ صفات کو پڑھ رکھاتھا۔ یہ مختلف بہانوںسے آپ کی مجلس میں آتااورمذکورہ صفات کو آپ کی ذات گرامی میں دیکھنے کے لئے بے تاب رہتا۔تھوڑے دن گزرے تھے کہ اسے یہ موقع میسر آگیا، زید کے اپنے الفاظ یہ ہیں: میں رسول اللہ( )کی مجلس میں تھا، ایک اعرابی آیا۔ اس نے عرض کیا: یا رسول اللہ( )! میرے علاقے کے کچھ لوگ مسلمان ہوئے تھے، اب انہیں قحط اور فقر وفاقہ کا سامنا ہے۔ اگر انہیں فوری مددنہ ملی تو خطرہ ہے کہیں وہ اسلام سے نکل نہ جائیں اسلئے میںآپ( )سے امداد کا طالب ہوں۔ اس وقت آپ کے پاس رقم نہیں تھی۔ میں نے اپنے ذہن میں ایک منصوبہ بنایا اور اللہ کے رسول( )سے کہا: میں آپ ( )کے لئے فلاں آدمی کے باغ سے ایک وسق کھجور خرید لیتا ہوں (وسق تقریباً 200 کلو گرام کا ہوتا ہے) اور آپ( ) کو دے دیتا ہوں، آپ ( ) کھجوریں کچھ دن کے بعد دے دیجئے گا۔ اللہ کے رسول نے فرمایا: کسی خاص شخص سے خرید نے کی بات نہ کرو بلکہ تم مجھ سے یہ کھجوریں ایک خاص مدت کے بعد وصول کرلینا اور ادائیگی ابھی کردو۔ میں نے اپنی پوٹلی کھولی اس سے 80 دینار نکالے اور آپ ( ) کے حوالے کردیئے۔ آپ ( ) نے اسی وقت اعرابی کو بلایا اور اسے رقم دے کر فرمایا: اپنے علاقے میں فوراً واپس چلے جاؤ اور لوگوں کی مدد کرو۔
 
ابھی کھجوروں کی ادائیگی کی میعاد میں3,2 دن باقی تھے کہ میں نے ان کے تحمل وبرد باری کی آزمائش کا فیصلہ کرلیا۔ ایک جنازے کی ادائیگی کے لئے آپ( )، سیدنا ابو بکر صدیقؓ، عمر فاروقؓ اور دیگر صحابہ کرامؓ کے ساتھ جنت البقیع تشریف لے گئے۔ جنازہ سے فارغ ہوئے تو میں بھی وہاں پہنچ گیا۔ میں نے اپنے منصوبے کے مطابق اچانک آپ( ) کی چادر پکڑلی اور اتنے زور سے کھینچی کہ وہ آپ( )کے کندھے سے اتر گئی اور ساتھ ہی نہایت کرخت لہجہ میں کہا:’’ محمد() ! میرا قرض واپس نہیں کروگے؟ تم بنو عبدالمطلب کے لوگ قرض واپس کرنے میں اچھے نہیں ہو۔ ادائے قرض میں بہت دیر کرتے ہو۔ میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ لوگوں سے تمہارے معاملات کی کیا حالت ہے!‘‘۔
 
زید کا یہ مطالبہ نہایت غیر معقول تھا کیونکہ ابھی وعدے کی مدت میں 3,2 دن باقی تھے اور پھر انداز ایسا بازاری جس میں پورے خاندان کو گھسیٹا گیا ہو، یہ اندازکسی بھی شخص کو غصہ دلانے کے لئے کافی تھا۔ سیدنا عمر فاروق ؓ ،آپ( ) کے ساتھ ساتھ تھے اور اس کی بکواس سن رہے تھے۔ وہ بھلا کہاں خاموش رہنے والے تھے،فوراً بولے:  اواللہ کے دشمن! تمہاری یہ جرأت کہ تم اللہ رسول ( ) کے ساتھ اس قسم کی گھٹیا گفتگو کرو۔ یہ میں کیا دیکھ سن رہا ہوں۔ اس ذات کی قسم! جس نے آپ( ) کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے! اگر مجھے ان کی پاسداری نہ ہوتی تو تمہاری اس بد تمیزی پر تمہاری گردن اڑا دیتا۔ تمہیں یہ جرأت کیسے ہوئی کہ تم ا یسی واہیات گفتگو کرو؟
 
 اب ذرا اللہ کے رسول کا رد عمل ملاحظہ فرمائیں۔ اتنی سخت گفتگو سننے کے باوجود بھی آپ مشتعل نہیں ہوئے۔ آپ کے چہرے پر بدستور مسکراہٹ موجود تھی۔ آپ نے عمر فاروق ؓ کو مخاطب کیا اور فرمایا: عمرؓ! ایسی بات نہ کرو بلکہ تمہیں چاہئے تھا کہ تم مجھ سے یہ کہتے کہ میں اس کا قرض خوش اسلوبی سے ادا کروں اور اسے یہ سمجھاتے کہ میاں! قرض کا تقاضا بھلے طریقے سے کرو‘‘۔
پھر حکم دیا: عمر جاؤ اور اس کا قرض واپس کرو اور ہاں! چونکہ تم نے اسے ڈرایا، دھمکایا ہے اس لئے اسے 20 صاع (قریباً50 کلو) کھجوریں زیادہ ادا کرو۔
 
زید بن سعنہ توجہ سے یہ گفتگو سن رہاتھا اور حیران تھا کہ اس قدر اشتعال انگیز گفتگو کے باوجود بھی آپ  حسب سابق تبسم کناں ہیں، بلاشبہ آپ  کا حلم آپ کے غصہ پر سبقت لے گیا ہے،زید کہتے ہیں: عمر  فاروق ؓ مجھے ساتھ لے کر بیت المال گئے۔ میرا قرض واپس کیا اور حسب ہدایت20 صاع کھجوریں زیادہ بھی دیں۔ میں نے کہا: عمر کیا تم مجھے پہچانتے ہو؟ انہوں نے کہا نہیں تم ہی بتاؤ تم کون ہو؟ میں نے کہا کہ میں زید بن سعنہ ہوں۔ کہنے لگے: اچھا الحبر، یعنی  وہی جو مشہور یہودی عالم ہے۔ میں نے کہا : جی ہاں الحبر۔ اب عمر فاروق ؓ نے کہا یہ جو تم نے اللہ کے رسول سے گفتگو کی ہے اور ان کے ساتھ بد اخلاقی سے پیش آئے ہو، تمہیں اس کا ہر گز کوئی حق نہیں تھا۔ میں نے کہا: عمر! تم ٹھیک کہتے ہو مگر تمہیںمعلوم نہیں کہ میں حق کا متلاشی تھا، میں نے نبوت کی تمام صفات آپ( ) میں دیکھ لی تھیں۔2 صفتیں باقی رہ گئی تھیں جن کا تعلق آپ( ) کے تحمل، حوصلہ مندی اور برد باری سے تھا۔ آج میں نے ان صفات کا بھی خوب مشاہدہ کرلیا ہے۔ بلاشبہ وہ نبی آخر الزماں( ) ہیں۔ عمر! میں آپ کو گواہ بناتا ہوں کہ میں آج سے سچے دل سے اسلام قبول کرتا ہوں، پھر کلمہ طیبہ پڑھا اور صحابیت کے شرف سے بہرہ ور ہوئے۔
 
 
 
 
 

شیئر: