Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

شربت کا سیرپ سے کیا تعلق ہے؟

شراب کے معنی دودھ اور پانی سمیت ہر وہ چیز شامل ہے جو پی جائے۔(فوٹو: پکسا بے)
چھوٹی پڑتی ہے انا کی چادر
پاؤں ڈھکتا ہوں تو سر کھلتا ہے
انا کی چادر اور چَڈی دونوں کبھی پوری نہیں پڑتیں، اس لیے ضروری ہے کہ بندہ انکساری سے کام لے اور زندگی صبر و شکر سے گزار دے۔ خیر بات چادر کی تھی جسے عربی میں اس کی مختلف اقسام کی رعایت کِسَاء، رَداء، جِلباب اور خُمُر جیسے مختلف ناموں سے پکارا جاتا ہے۔ 
چوں کہ چادر یا اوڑھنی جسم کو ڈھانپنے کا کام کرتی ہے، اس رعایت سے عربی میں شراب کو  مجازاً  "خَمر" کہتے ہیں کہ یہ بھی پینے والے کی عقل کو ڈھانپ لیتی ہے۔
پھر اس "خمر" سے لفظ "خمار" ہے جو "نشہ" کا مترادف ہے، جبکہ مدہوش شخص اور نشیلی آنکھیں "مخمور" کہلاتے ہیں۔ دیکھیں اسرار الحق مجاز کیا کہہ رہے ہیں:
آپ کی مخمور آنکھوں کی قسم
میری مے خواری ابھی تک راز ہے
سرکے، دھی اور آٹے میں پیدا ہونے والی تُرشی "خمیر" اور خمیرے آٹے سے بنی روٹی "خمیری" کہلاتی ہے۔ اس "خمیر" کو بھی "خمر" سے نسبت ہے، اسے آپ خَمِیر اُٹھنا، خَمِیر اَنگیز اور خَمِیر بگَڑنا جیسی مختلف تراکیب میں دیکھ سکتے ہیں۔
برسبیل تذکرہ عرض ہے کہ "خمیری روٹی" کی ضد "فطیری روٹی" ہے، جوتازے گندھے آٹے سے بنی ہوتی ہے۔اس "فطیری" کا عوامی تلفظ "پتیری" ہے۔

(فوٹو: پکسا بے)

فارسی اور اردو ادبیات میں شراب اور اس سے متعلق الفاظ مثلاً ساقی، سبو، ساغر، مے کش، میخانہ و میکدہ پر مشتمل شاعری "خمریات" کہلاتی ہے۔ "خمریات" کے باب میں ریاض خیر آبادی کا نام محتاج بیان نہیں، دلچسپ بات یہ ہے کہ انہوں اس "دختر رَز" کو کبھی منہ نہیں لگایا مگر "خمریات" میں خاصا نام کمایا ہے۔ اُن کا ایک خوبصورت شعر ہے:    
کیا شراب ناب نے پستی سے پایا ہے عروج
سر چڑھی ہے حلق سے نیچے اتر جانے کے بعد
شعر میں موجود ترکیب "شراب ناب" کے معنی "خالص شراب" ہیں۔ لفظ شراب کی اصل "شرب" ہے جس کے معنی "پینا" ہیں اور شراب کے معنی "پینے کی چیز" ہیں، یوں شراب کے معنی دودھ اور پانی سمیت ہر وہ چیز شامل ہے جو پی جائے۔

جس جگہ دو یا دوسے زیادہ لوگ بیٹھ کر پی رہے ہوں ان لوگوں کو "ہم مشرب" کہتے ہیں۔(فوٹو: پکسا بے)

اہل ایران نے لفظ شراب کو مخصوص معنی میں برتا، یوں فارسی کی رعایت سے اردو میں بھی "شراب" وہ نشہ آور مشروب قرار پایا جس کا پینا پلانا حرام ہے۔ خود لفظ مشروب پر غور کریں کہ یہ بھی "شرب" سے ہے، اور اس کے معنی بھی "پینے کی چیز" ہیں۔ تاہم اردو میں "مشروب" کے معنی میں چائے اور قہوہ وغیرہ نہیں کہ اس کا اطلاق فقط "شربت" کی ہم قبیلہ چیزوں پر ہوتا ہے جو انگریزی میں "سوفٹ ڈرنک" کہلاتی ہیں۔
اب لفظ "شربت" پر غور کریں کہ اصلاً اس کے معنی بھی "پینے کی چیز" ہیں مگر اہل ایران نے اس کو "ٹھنڈے میٹھے مشروب" کے معنی عطا کر کے الگ جہت دے دی ہے، یوں اردو میں بھی "شربت" اسی مفہوم میں بولا اور سمجھا جاتا ہے۔ یہی لفظ شربت جب انگریزی میں پہنچا تو اطلاق کی جزوی تبدیلی کے ساتھ سیرپ/ sirup ہوگیا۔
اب اس سلسلے کی آخری بات ملاحظہ کریں اور یہ کہ عربی لفظ "مشرب" کے معنی پینے کی جگہ ہیں یوں اس کے معنی میں گھاٹ، حوض، جھیل، چشمہ اور تالاب وغیرہ ہیں۔ جس جگہ دو یا دوسے زیادہ لوگ بیٹھ کر پی رہے ہوں ان لوگوں کو "ہم مشرب" کہتے ہیں۔

لفظ "خالص" سے متعلق الفاظ میں خلوص، مخلص اور اخلاص داخل ہیں۔  (فوٹو: پکسا بے)

"مشرب" کے مجازی معنی میں مذہب، مسلک،ملت، آئین، طور طریقہ، ذوق ، میلان، مزاج،اور اُصول شامل ہے۔ اس بات کو "شیخ ظہور الدین حاتم" کے شعر سے سمجھیں:
کسو مشرب میں اور مذہب میں
ظلم اے مہرباں نہیں ہے درست
اب لفظ "ناب" کی بات ہوجائے۔ یہ فارسی زبان سے متعلق اسم صفت ہے اور اس کے معنی میں " بے آمیز، ملاوٹ سے پاک اور خالص" شامل ہے۔ 
"خالص" عربی لفظ ہے جو "صافی" کا مترادف ہے، ان دونوں میں بنیادی فرق یہ ہے کہ خالص اس کو کہتے ہیں جسے آمیزش سے پاک کرلیا گیا ہو جب کہ "صافی" اس چیز کو کہتے ہیں جو پہلے ہی سے بے آمیز ہو۔ لفظ "خالص" سے متعلق الفاظ میں خلوص، مخلص اور اخلاص داخل ہیں۔ اب خلوص کی رعایت سے ایک خوبصورت شعر ملاحظہ کریں:
ہم نے بصد خلوص پکارا ہے آپ کو
اب دیکھنا ہے کتنی کشش ہے خلوص میں 
شعر میں وارد لفظ "کشش" کی بات ہو جائے۔ لفظ کشش مصدر "کشیدن" یعنی کھینچنا سے نکلا ہے۔اس کے معنی میں کھینچنے کی قوت اور رغبت شامل ہے، اسے آپ "کشش ثقل" اور "پُر کشش" کی سی تراکیب میں دیکھ سکتے ہیں۔
لفظ "کش، کشید اور کشیدہ" بھی اسی کشیدن سے مشتق ہیں اور ان سب کے معنی میں کھینچنے کا مفہوم پوشیدہ ہے۔ مثلاً کش کو مے کش اور کش مکش میں اور کشیدہ کو "کشیدہ کاری" میں دیکھا جاسکتا ہے۔ 

شیئر: