Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عوام کی عدم دلچسپی، ایران میں صدارتی انتخابات کے لیے پولنگ جاری

ایران کے تمام ریاستی امور میں سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کا فیصلہ حتمی ہوتا ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
ایرانی عوام جمعے کو ایک ایسے صدارتی انتخاب کے لیے ووٹ ڈال رہے ہیں جسے حکومت کے ناقدین کسی بھی صورت سے جمہوری، شفاف اور آزادانہ نہیں دیکھتے۔
عرب نیوز کے مطابق پہلے سے طے شدہ اس انتخاب میں اس بات کا امکان ہے کہ صدارت ایک جج کو سونپی جائے گی جس پر مبینہ طور پر سیاسی قیدیوں کی پھانسیوں میں ملوث ہونے پر واشنگٹن کی جانب سے پابندی عائد کر دی گئی تھی۔
سخت گیر ابراہیم رئیسی کو ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کی حمایت حاصل ہے اور وہ حقیقت پسند صدر حسن روحانی کے بعد صدارت کے لیے پسندیدہ امیدوار ہیں۔
ہاروڈ سے تعلیم یافتہ ایرانی امریکی پولیٹیکل سائنٹسٹ ڈاکٹر ماجد رفیع زادہ کے مطابق ’اس الیکشن کے دوران ایرانی حکومت یہ ظاہر کرنے کی کوشش کرے گی کہ اسے قانونی حیثیت حاصل ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ سرکاری ملازمین کو ہدایت کی جائے گی کہ وہ حکومت کی مقبولیت کو ظاہر کرنے لیے انتخابات میں جائیں جبکہ حکام ووٹرز کی زیادہ تعداد دکھانے کے لیے ممکنہ طور پر ردوبدل کریں گے۔
بدھ کو ایران کے سپریم لیڈر خامنہ ای نے ایرانیوں کو ووٹ ڈالنے کی تاکید کی ہے تاہم توقع ہے کہ خراب معاشی حالات پر غصے کی وجہ سے لوگوں کی بڑی تعداد انتخابات کا بائیکاٹ کرے گی۔
تہران یونیورسٹی کی ایک طالبہ ثریا نے عرب نیوز کو بتایا کہ ’حکومت لوگوں کو ووٹ ڈالنے کا کہہ رہی ہے لیکن میں انتخابات کو توہین کے طور پر دیکھ رہی ہوں، ہم دنیا کو یہ دکھانے کے لیے ووٹ نہیں ڈال رہے ہیں کہ ہم ایرانی اس قدامت پسند اسٹیبلشمنٹ سے مایوس ہیں۔‘
’ہم ایسی حکومت کے ساتھ نہیں جو ایک مسافر طیارے، ’یوکرین انٹرنیشنل ایئرلائنز فلائٹ 752 کو گرائے۔ جنوری 2020 میں آئی آر جی سی نے اس طیارے کو گرایا تھا۔ یہ حکومت بار بار جھوٹ بولتی ہے اور اپنے ہی شہریوں کو قتل کرتی ہے اور ان پر تشدد کرتی ہے۔‘

تہران میں ایرانی عوامی ووٹ ڈالنے کے لیے پولنگ سٹیشن آئے ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)

ان کا کہنا تھا کہ ‘ہم ایسی حکومت کے ساتھ نہیں جو قوم کے قدرتی وسائل چوری کرتی ہے اور اس کو ملیشیا پر خرچ کرتی ہیں۔ اعتدال پسند اور سخت گیر کا پرانا کھیل اب ختم ہو چکا۔ وہ سب ایک جیسے ہیں۔‘
ایران کے سخت گیر حکمرانوں اور منتخب حکام کی حکومت میں جوہری اور خارجہ پالیسیوں سمیت تمام ریاستی امور میں خامنہ ای کا فیصلہ حتمی ہوتا ہے۔
معشیت سے متعلق عوام کے غصے کی آگاہی کی وجہ سے ایرانی قیادت کو احتجاج کا دوبارہ خدشہ ہے۔ 2017 کے احتجاج میں ایرانی مظاہرین نے ’حکومت کی تبدیلی‘ کا مطالبہ کیا تھا۔

شیئر: