Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ایران میں انتخابات نوجوانوں کی مایوسی اور امیدوں کا امتحان

انتخابات کو ایرانی اقدامات کے لئے ایک ریفرنڈم کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ (فوٹو الشرق الاوسط)
ایران میں بہت سے نوجوانوں کو یقین نہیں کہ منتخب عہدیدار زیادہ سے زیادہ سیاسی اور معاشرتی آزادیاں دینا چاہتے ہیں۔ اس خیال سے کتنے لوگ متفق ہیں، اس کا اظہار 18 جون کو ہونے والی ووٹنگ میں ہوجائے گا۔
روئٹرز کے مطابق ایران کے انتخابات کو سیاسی اور معاشی بحرانوں سے نمٹنے کے ایرانی اقدامات کے لئے ایک ریفرنڈم کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
سرکاری سروے میں امکان ظاہر کیا گیا ہے کہ ووٹنگ میں حصہ لینے والے لوگوں کی تعداد ریکارڈ حد تک کم ہو گی۔
حکومت پر تنقید کرنے والوں کا کہنا ہے کہ اس صورتحال کا سبب سیاسی پابندیوں سے تنگ نوجوان آبادی کی بھاری اکثریت کے لئے بیلٹ باکس میں کسی چوائس کا  نہ ہونا اور معاشی مشکلات ہیں۔
توقع ہے کہ مذہبی رجحان رکھنے والے اور درمیانے طبقے کے لوگ ووٹ ڈالنے جائیں گے اور سخت گیر فرنٹ رنر، کٹر مغرب مخالف ابراہیم رئیسی کو  ووٹ دیں گے تاہم شہروں، قصبوں اور کچھ  دیہات کے نوجوان پڑھے لکھے ووٹرز ممکنہ طور پر گھروں میں ہی رہیں گے۔
تہران سے تعلق رکھنے والی فرانسیسی ادب کی 22 سالہ طالبہ شیریں نے کہا کہ میں آزادی چاہتی ہوں، جمہوریت چاہتی ہوں۔
ایرانی صدور کو ہماری زندگیاں تبدیل کرنے کا کوئی اختیار نہیں۔ میں ووٹ کیوں دوں؟ اس حساس موضوع پر انٹرویو دینے والے بہت سے دیگرنوجوانوں کی طرح شیریں نے بھی اپنے مکمل نام کے ساتھ شناخت ظاہر کرنے سے انکار کیا۔
ایران کے کلیریکل سسٹم کے تحت منتخب صدر کے اختیارات سخت گیر سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کے پاس ہیں جو 1989سےعہدے پر فائز ہیں۔
عملیت پسند صدر حسن روحانی نے 2013 میں صدارت حاصل کی تھی۔ انہیں اپنے بیانات کے باعث بہت سی خواتین اور نوجوان لوگوں کی حمایت سے حاصل ہوئی تھی جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ایرانی آزاد ملک میں رہنے کے مستحق ہیں اور انہیں دنیا بھر کے دوسرے لوگوں کی طرح تمام حقوق حاصل ہیں۔

بہت سے امیدواروں نے وعدہ کیا ہے کہ وہ افراتفری پر قابو پائیں گے۔ (فوٹو عرب نیوز)

روحانی کو مسلسل تیسری مرتبہ انتخاب لڑنے کی اجازت نہیں تاہم ناقدین کا کہنا ہے کہ روحانی اپنے وعدوں کو پورا کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
28 سالہ سیلز منیجر سودابی نے کہا کہ میں تذبذب کا شکار ہوں۔ میں نے ہمیشہ ووٹنگ پر یقین کیا۔ گزشتہ دو انتخابات میں موجودہ صدر کو ووٹ بھی دیا تھا لیکن وہ اپنے وعدے پورے نہیں کرسکے۔
اندرون اور بیرون ملک سے بہت سے ایرانیوں نے انتخابات کے بائیکاٹ کا مطالبہ کیا ہے۔
صدارتی انتخابات کے تمام سات امیدوار جن میں پانچ سخت گیر اور دو کم اہم اعتدال پسند شامل ہیں، اپنی تقریروں اور انتخابی مہم کے پیغامات میں نوجوان ووٹروں کو راغب کرتے رہے ہیں۔
انہوں نے 85 ملین آبادی میں سے 60 فیصد لوگوں تک پہنچنے کے لئے سوشل میڈیا کا استعمال کیا ہے جن کی عمریں 30 سال سے کم ہیں۔
ایران میں سرکاری طور پر سوشل میڈیا  تک رسائی روک دی گئی ہے۔ بہت سے نوجوان اس پابندی پر برہم ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا کو بلاک نہیں کیا جانا چاہئے۔

اندرون اور بیرون ملک سے کئی ایرانیوں نے انتخاب کے بائیکاٹ کا مطالبہ کیا ہے۔ (فوٹو روئٹرز)

شمالی شہر ساری سے تعلق رکھنے والی یونیورسٹی کی21 سالہ طالبہ سحرناز نے کہا کہ اب جب انہیں اپنے سیاسی ایجنڈے پرعمل پیرا ہونے کے لئے میرے ووٹ کی ضرورت ہے تو وہ سوشل میڈیا پر پابندی ختم کرنے کا وعدہ کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جب تک میری آزادیوں پر پابندی عائد ہے میں ووٹ نہیں دوں گی۔
معاشی مشکلات پر بڑھتے ہوئے غم وغصے کی صورتحال میں امیدواروں نے وعدہ کیا ہے کہ وہ افراتفری پر قابو پائیں گے، ملازمتیں پیدا کریں گے اور اپنے منصوبوں کی تفصیل میں جائےبغیر ایران کی کرنسی کی قدر میں تیزی سے ہونے والی کمی کو ختم کریں گے۔
جنوبی شہر اہواز سے تعلق رکھنے والے 27 سالہ جمشید نے شبہات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ میں بے روزگار اور ناامید ہوں۔ میں ایسے نظام کوووٹ کیوں ڈالوں جو میری دکھی زندگی کا باعث ہے۔
معیشت، حکام کا سب سے بڑا چیلنج ہے جو بدانتظامی سے دوچار ہے۔روٹی اور چاول جیسی بنیادی اشیا کی قیمتوں میں روزانہ اضافہ ہوتا ہے۔
گوشت کی قیمت 40 ڈالر فی کلو گرام کے برابر ہے۔ کم سے کم ماہانہ اجرت تقریباً 215 ڈالر کے برابر ہے۔

حسن روحانی کو مسلسل تیسری مرتبہ انتخاب لڑنے کی اجازت نہیں۔ (فوٹو الشرق الاوسط)

بہت سے ووٹروں نے کہا ہے کہ وہ  رئیسی کو ووٹ دیں گے جو خامنہ ای کی مزاحمتی معیشت کے ایک مضبوط وکیل ہیں۔ یہ ایرانی مصنوعات کی تیاری اور خدمات میں خود انحصاری بڑھانے کے منصوبوں پر مبنی ہے۔
دوسری جانب اصفہان سے تعلق رکھنے والے ٹیکسی ڈرائیور اور تین بچوں کے باپ، 41 سالہ علی رضا دادور نے وسطی بینک کے سابق چیف عبدالناصر ہمتی کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ  وہ  واحد امیدوار ہیں جو معیشت کو ٹھیک کرسکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ مجھے سیاست کی کوئی پروا نہیں ۔ مجھے اپنے کنبے کی روزانہ کی مشکلات کا خیال ہے۔
تبریز کے رہائشی سجاد اخباری نے کہا کہ  میرا مذہبی فرض ہے کہ میں ووٹ ڈالوں اور ایسے صدر کا انتخاب کروں جو انقلاب کا وفادار ہو۔ انہوں نے کہا کہ میرا ووٹ ہمارے دشمنوں کے منہ پر طمانچہ ثابت ہو گا۔
 

شیئر: