Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’سنکیانگ میں کاروبار کرنے والی کمپنیوں کو سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے‘

سنکیانگ میں کاروبار کرنے پر کمپنیوں کو امریکی قوانین کی خلاف ورزی کا مرتکب ٹھہرایا جا سکتا ہے۔ فوٹو روئٹرز
امریکہ نے چین کے صوبہ سنکیانگ میں جبری مشقت اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی بنیاد پر کاروباری اداروں اور شخصیات کو صوبے میں سرمایہ کاری کرنے اور سپلائی چین سے وابستگی پر خبردار کیا ہے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق امریکی محکمہ خارجہ کی جانب سے منگل کو جاری ہونے والے بیان میں متنبہ کیا گیا ہے کہ صورتحال کی سنگینی اور سنکیانگ میں بدسلوکی کی حد کو مدنظر رکھتے ہوئے، اگر کاروباری کمپنیوں اور متعلقہ شخصیات نے سنکیانگ کے ساتھ جڑی سپلائی چین، منصوبوں یا سرمایہ کاری سے علیحدگی نہ اختیار کی تو ایسی صورت میں امریکی قوانین کی خلاف ورزیوں کی وجہ سے سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
امریکی حکومت نے اس معاملے سے نمٹنے کے لیے اداروں کے مابین ہم آہنگی کو مستحکم کرنے کا عندیہ دیا ہے۔
امریکی لیبر ڈیپارٹمنٹ اور تجارتی نمائندے کے دفتر نے دیگر حکومتی اداروں کی جانب سے سنکیانگ سے متعلق مشترکہ تازہ ترین ایڈوائزری جاری کی ہے، جو پہلی مرتبہ گذشتہ سال یکم جولائی کو محکمہ خارجہ، کامرس، داخلی سکیورٹی اور محکمہ خزانہ کی جانب سے جاری کی گئی تھی۔ 
محکمہ خزانہ نے فنانشل ٹائمز اخبار میں شائع ہونے والی رپورٹ پر تبصرہ کرنے سے انکار کیا ہے جس میں کہا گیا تھا کہ چین کی جانب سے ہانگ کانگ اور سنکیانگ میں کریک ڈاؤن کرنے پر امریکہ رواں ہفتے مزید پابندیاں عائد کرے گا۔
روئٹرز کے مطابق امریکی انتظامیہ ہانگ کانگ میں بگڑتی ہوئی صورتحال کے پیش نظر جمعے تک اسی قسم کی ایڈوائزری جاری کر سکتی ہے جو سنکیانگ کے معاملے میں کی گئی ہے۔

امریکہ نے چین پر الزام عائد کیا ہے کہ سنکیانگ میں مذہبی اقلیتوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

منگل کو جاری ہونے والی ایڈوائزری میں امریکی کمپنیوں کو سختی سے متنبہ کیا گیا ہے کہ اگر ان کی کاروباری سرگرمیاں بالواسطہ طور پر بھی سنکیانگ میں چینی حکومت کے وسیع اور بڑھتے ہوئے کڑی نگرانی کے نظام سے وابستہ ہیں تو انہیں امریکی قوانین کی خلاف ورزی کا مرتکب ٹھہرایا جا سکتا ہے۔
سنکیانگ میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں اور جدید ٹیکنالوجی کی بنیاد پر سرویلنس کے الزام میں امریکی حکومت نے 14 کمپنیوں اور دیگر اداروں کو معاشی بلیک لسٹ میں شامل کیا ہے۔
ایڈوائزری میں کہا گیا ہے کہ چینی حکومت کی جانب سے سنکیانگ میں بدترین بدسلوکی برقرار ہے جس کے تحت مسلمان نسلی گروہوں ایغور، قازقس، اور کرغیز کے علاوہ دیگر مذہبی اقلیتوں کو بھی نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
تاہم چین نے ہمیشہ ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ سنکیانگ میں مذہبی شدت پسندی سے نمٹنے کے لیے ٹریننگ سینٹر قائم کیے ہوئے ہیں۔
امریکی تجارتی ترجمان کیتھرین تائی نے جبری مشقت سے تیار ہونے والی اشیا کی درآمد پر پابندی عائد کرنے پر کینیڈا، میکسیکو، اور دیگر شراکت داروں کی تعریف کی ہے۔

چین کے مطابق سنکیانگ میں مذہبی شدت پسندی سے نمٹنے کے لیے ٹریننگ سینٹر قائم کیے ہوئے ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)

علاوہ ازیں امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نے کہا ہے کہ قانون کی خلاف ورزی کرنے پر ہانگ کانگ کی حکومت کو بھی جوابدہ ٹھہرایا جائے گا اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے مرتکب چینی عہدیداروں پر بھی پابندیاں عائد کی جائیں گی۔

شیئر: