Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

تنازعے میں شدت، امریکہ نے چینی پابندیوں کو بے بنیاد قرار دے دیا

امرکی وزیر خارجہ کا کہنا ہے ہم اپنے اتحادیوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)
امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے خبردار کیا ہے کہ چین کے اویغور شہریوں کے ساتھ سلوک پر امریکی پابندیوں کے جواب میں دو امریکیوں پر پابندیاں لگانا ’بے بنیاد‘ ہے اور یہ صرف سنکیانگ میں ہونے والی ’نسل کشی‘ کے مسئلے کو مزید اجاگر کرے گا۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق سنیچر کو امریکی وزیر خارجہ نے ایک بیان میں کہا کہ ’بیجنگ کی جانب سے انسانی حقوق اور بنیادی آزادیوں کے لیے بولنے والوں کو ڈرانے اور خاموش کروانے کی کوششیں صرف سنکیانگ میں جاری نسل کشی اور انسانیت کے خلاف جرائم کے حوالے سے بین الاقوامی جانچ پڑتال میں معاون ثابت ہو گی۔‘
انٹونی بلنکن کا یہ ردعمل چین کی جانب سے دو امریکی، ایک کینیڈین شہری اور ایک انسانی حقوق کے لیے کام کرنے تنظیم پر پابندی کے اعلان کے بعد سامنے آیا ہے۔
چین نے یہ اقدام اس ہفتے دو ممالک کی جانب سے اس پر اویغور اقلیتی گروہ کے ساتھ سلوک کی بنا پر عائد ہونے والی پابندیوں کے جواب میں کیا ہے۔
امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی کے دو ممبران پر پابندی کو ’بے بنیاد‘ قرار دیا۔
انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطاق چین کے علاقے سنکیانگ میں کم از کم 10 لاکھ اویغور اور دوسرے مسلمان گروہوں کے افراد کیمپوں میں قید ہیں۔ ان تنظیموں نے چینی حکام پر خواتین کی زبردست نس بندی اور جبری مشقت کے الزامات بھی عائد کیے ہیں۔
یورپی یونین، برطانیہ، کینیڈا اور امریکا نے ان الزامات پر سنکیانگ کے کئی عہدیداروں پر پابندیاں عائد کی ہیں۔ جس پر چین نے انتقامی کارروائی کے طور پر یورپی یونین اور برطانیہ کے شہریوں کو پابندیوں کا نشانہ بنایا ہیں۔
اس حوالے سے امریکی وزیر خارجہ مزید نے کہا کہ ’ہم چین سے سنکیانگ میں ایغور مسلمانوں اور دوسرے نسلی اور مذہبی اقلیتی گروہوں کے خلاف انسانی حقوق کی پامالیوں کے خاتمے اور غیرقانونی طور پر گرفتار افراد کی رہائی کے مطالبے میں کینیڈا، برطانیہ، یورپی یونین اور دوسرے شراکت داروں اور دنیا بھر میں اپنے اتحادیوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔‘
 

شیئر: