Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سنکیانگ کی ویڈیوز یوٹیوب پر بلاک، گروپ نے نئی سروس پر منتقل کر دیں

یوٹیوب کے مطابق ان کی ویڈیوز میں شناخت فراہم کرنے والے مواد کی ممانعت ہے۔ فوٹو: روئٹرز
انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے گروپ نے چین میں لاپتہ کیے گئے شہریوں کے رشتہ داروں کے بیانات پر مشتمل ویڈیوز یوٹیوب کی جانب سے ہٹائے جانے کے بعد اوڈیسی سروس پر منتقل کر دی ہیں۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق گوگل کے ملکیتی یوٹیوب کی جانب سے ہٹائے جانے سے قبل ان ویڈیوز کو دسیوں لاکھ بار دیکھا گیا۔
انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے اس گروپ کو ہیومن رائٹس واچ جیسی بین الاقوامی تنظیموں کی حمایت حاصل ہے۔
چین کے علاقے سنکیانگ میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں سامنے لانے پر اس گروپ کو سنہ 2017 میں اپنے قیام سے ہی کازاخ انتظامیہ کے سخت رویے کا سامنا ہے۔
سنکیانگ میں پیدا ہونے والے اس گروپ کے ایک بانی کازاخ ایکٹیوسٹ سیرکزحان بیلاش کو کئی بار کازاخستان میں حکام نے حراست میں بھی لیا۔
انہوں نے بتایا کہ کازاخستان میں حکام نے پانچ برس قبل ان سے کہا تھا کہ سنکیانگ کی صورتحال کے بارے میں بات کرتے ہوئے ’نسل کشی‘ کا لفظ استعمال نہ کیا جائے۔
ایکٹیوسٹ سیرکزحان بیلاش سمجھتے ہیں کہ کازاخ حکام نے ایسا چین کی حکومت کی جانب سے سفارتی دباؤ پر کیا ہوگا۔
روئٹرز کو ٹیلی فون پر انٹرویو میں بیلاش نے کازاخ ہیومن رائٹس چینل ’اتاجرت‘ کی ویڈیوز کے بارے میں بتایا کہ ’یہ صرف حقائق ہیں۔‘
اس گروپ کے چینل نے یوٹیوب پر پانچ برس کے عرصے میں 1100 کے لگ بھگ ویڈیوز اپلوڈ کیں جن کو اب تک 12 کروڑ سے زائد مرتبہ دیکھا جا چکا ہے۔
ان ویڈیوز میں ایسے ہزاروں افراد کے انٹرویوز شامل ہیں جن کا دعویٰ ہے کہ ان کے رشتہ دار چین کے سنکیانگ علاقے میں لاپتہ کیے گئے اور ان کا کوئی سراغ نہیں مل پایا۔

یوٹیوب نے وضاحت کی ہے کہ ان کو چینل پر ویڈیوز کے حوالے سے شکایات موصول ہوئی تھیں۔ فوٹو: روئٹرز

اقوام متحدہ کے ماہرین اور انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کے اندازے کے مطابق حالیہ چند برسوں میں چین کے سنکیانگ ریجن میں دس لاکھ سے زائد افراد کو حراست میں رکھا گیا۔
’اتاجرت‘ یوٹیوب چینل کے ایڈمنسٹریٹر نے روئٹرز کو بتایا کہ 15 جون کو یوٹیوب نے چینل کو گائیڈ لائنز کی خلاف ورزی پر بند کیا اور بتایا گیا کہ 12 ویڈیوز کے بارے میں رپورٹ کیا گیا کہ یہ ’سائبر ہراسیت‘ کی پالیسی کے خلاف ہیں۔
چینل کے ایڈمنسٹریٹر کے مطابق یوٹیوب سے اپیل کی گئی تو ان میں سے چند ویڈیوز بحال کر دی گئیں تاہم یہ نہیں بتایا گیا کہ ان ویڈیوز کو عام لوگوں کے دیکھے جانے سے دور کیوں رکھا گیا۔
روئٹرز کی جانب سے چینل کی بندش پر یوٹیوب سے پوچھا گیا تو ’اتاجرت‘ کو جون کی 18 تاریخ کو بحال کر دیا گیا۔ یوٹیوب نے وضاحت کی ہے کہ ان کو چینل پر ویڈیوز کے حوالے سے شکایات موصول ہوئی تھیں جن میں کئی افراد اپنے شناختی کارڈ اٹھائے یہ ثابت کر رہے ہیں کہ وہ لاپتہ افراد کے رشتہ دار ہیں۔
یوٹیوب کے مطابق ان کی ویڈیوز میں شناخت فراہم کرنے والے مواد کی ممانعت ہے اور ایسا کرنا ان کی پالیسی گائیڈ لائنز کی خلاف ورزی ہے۔
ایم آئی ٹی ٹیکنالوجی نے بتایا کہ ہیومن رائٹس واچ نے بھی یوٹیوب کو ’اتاجرت‘ چینل کے بلاک کرنے کے حوالے سے خبردار کیا تھا۔
یوٹیوب نے ’اتاجرت‘ کو آئی کارڈز کی شناخت معدوم کرنے کے لیے کہا تھا تاہم چینل کی انتظامیہ نے ایسا کرنے میں ہچکچاہٹ دکھائی اور مؤقف اختیار کیا کہ ایسا کرنے سے ویڈیوز کے مواد کی ساکھ اور اصل ہونے پر سوال اٹھ سکتے ہیں۔
’اتاجرت‘ نے یوٹیوب پر دوبارہ بلاک کیے جانے کے خدشے کے پیش نظر اپنی ویڈیوز کو اوڈیسی سروس پر منتقل کرنے کا فیصلہ کیا۔ یہ سروس بلاک چین پروٹوکول کے تحت کام کرتی ہے اور ویڈیوز کے مالک کو زیادہ کنٹرول دیتی ہے۔

شیئر: