Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بلوچستان میں کورونا فنڈ سے لڈو، تاش، فٹبال،گیند اور بَلے خریدنے کا انکشاف

حکام نے کورونا فنڈز سے مہنگے داموں اشیا کی خریداری کی وجہ ہنگامی حالت کو قرار دیا۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)
بلوچستان میں کورونا فنڈ سے لڈو، کرکٹ بیٹ، گیند، فٹبال اور تاش خریدنے کا انکشاف ہوا ہے۔ قرنطینہ مراکز میں ٹینٹ کے کیل لگانے پر 13 لاکھ روپے خرچ کیے گئے جبکہ فی ماسک 800 روپے کے حساب سے لاکھوں ماسک خریدے گئے۔
بلوچستان کی اپوزیشن جماعتوں نے کورونا فنڈز کے بے جا استعمال اور مہنگے داموں اشیا کی خریداری کی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے جبکہ حکومت کا کہنا ہے کہ خریداری عام حالت میں نہیں بلکہ ہنگامی صورتحال میں کی گئی جب مارکیٹ میں ہر چیز کی قلت تھی۔
آڈیٹر جنرل پاکستان نے بھی ایک الگ آڈٹ رپورٹ میں پی ڈی ایم اے میں کروڑوں روپے کی بے ضابطگیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا ہے کہ پی ڈی ایم اے نے ہنگامی حالت میں کھانے پینے کی اشیا اور ریلیف کے سامان کی خریداری قواعد و ضوابط کے خلاف کی ہے۔
بلوچستان میں کورونا کی پہلی لہر کے دوران فروری 2020 سے جون 2020 تک پی ڈی ایم اے کی جانب سے خرچ کیے گئے ایک ارب 80 کروڑ روپے کی تفصیلات بلوچستان حکومت نے صوبائی اسمبلی میں پیش کی ہیں۔
آفات سے نمٹنے کے ادارے پراونشل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (پی ڈی ایم اے) کے ڈائریکٹر کی جانب سے 11 صفحات پر مشتمل رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سنہ 2020 میں فروری سے جون تک محکمہ خزانہ بلوچستان نے کورونا وبا سے نمٹنے کے لیے دو ارب 23 کروڑ روپے جاری کیے جس میں سے ایک ارب 80 کروڑ روپے خرچ کیے گئے۔
رپورٹ کے مطابق یہ رقم کورونا کے متاثرین کے لیے طبی سہولیات، قرنطینہ مراکز میں کھانے پینے، رہائش کی سہولیات مہیا کرنے، تعمیرات، ٹرانسپورٹیشن کے علاوہ ڈاکٹروں اور طبی عملے کو حفاظتی آلات سمیت مجموعی طور پر 166 اشیا کی خریداری پر خرچ کی گئی۔
رپورٹ کے صفحہ نمبر چار میں بتایا گیا ہے کہ کورونا فنڈ سے 30 کرکٹ بیٹ، 60 کرکٹ بال، 24 فٹبال، 40 عدد گڑیا، 24 لڈو، 24 تاش خریدے گئے جبکہ بچوں کے لیے 45 مختلف کھلونے بھی خریدے گئے۔ ان اشیا پر مجموعی طور ایک لاکھ 24 ہزار روپے خرچ ہوئے۔ قرنطینہ مراکز میں موجود افراد کے لیے کیمپنگ ٹینٹ، سلیپنگ بیگز، ڈائپرز، بسکٹ، چاکلیٹ، چپس، پھل، دودھ، چکن بریانی اور مٹن سمیت کھانے پینے اور ضرورت کی دیگر اشیا پر بھی لاکھوں روپے صرف ہوئے۔

ضیا لانگو کے مطابق کورونا متاثرین کو ہم نے صرف دوائی نہیں دینی تھی انہیں علیحدہ رکھنا بھی ضروری تھا۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

رپورٹ کے مطابق 24 فروری سے 18 مارچ تک یعنی صرف 23 دنوں میں قرنطینہ مراکز میں موجود افراد اور عملے نے 6 کروڑ روپے کا کھانا کھایا۔ ایک فرد کے ایک وقت کے کھانے کے پیکٹ کی قیمت 825 روپے بتائی گئی جبکہ 95 لاکھ روپے فی عدد کے حساب سے 20 کنٹینر خریدے گئے۔
کوئٹہ سے تفتان کے قرنطینہ مرکز تک ٹرانسپورٹ کے اخراجات کی مد میں 9 کروڑ روپے سے زائد خرچ کیے گئے۔ مارچ کے ایک ہی مہینے میں پٹرول کی مد میں ایک کروڑ روپے کے اخراجات اس کے علاوہ ہیں۔
بلوچستان اسمبلی میں حزب اختلاف کی جماعت بلوچستان نیشنل پارٹی کے رکن ثناء اللہ بلوچ نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ خیمے لگانے کے لیے 13 لاکھ روپے کیلیں خریدنے پر خرچ ہوئے۔
ان کا کہنا ہے کہ ماسک 800 روپے اورحفاظتی عینک 2440 روپے میں خریدے گئے۔ تھرمل گن 21 ہزار 960 روپے میں خریدا گیا جبکہ اس کی عام مارکیٹ میں قیمت اڑھائی ہزار روپے سے زائد نہیں۔ اسی طرح پی پی ای کٹس چار ہزار اور پانچ ہزار روپے میں خریدے گئے جبکہ بازار میں اس وقت قیمت ساڑھے تین سو روپے ہے۔ رضائیاں، کمبل اور بیڈ شیٹس بھی مہنگے لیے گئے۔
انہوں نے کہا کہ ایک کروڑ 22 لاکھ روپے کے پانی کے چھوٹے بوتل خریدے گئے۔ ثناء بلوچ کا کہنا ہے کہ ڈیڑھ لاکھ روپے کے حساب سے سینکڑوں کی تعداد میں باتھ روم بنائے گئے وہ کہاں ہیں؟

کوئٹہ سے تفتان کے قرنطینہ مرکز تک ٹرانسپورٹ کے اخراجات کی مد میں 9 کروڑ روپے سے زائد خرچ کیے گئے۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

کورونا کی پہلی لہر کے ابتدائی دنوں میں تفتان قرنطینہ مراکز میں رہنے والے علمدار روڈ کوئٹہ کے رہائشی سخاوت حسین نے اردو نیوز کو بتایا کہ عراق اور ایران سے واپسی پر وہ 18 دنوں تک تفتان کے پاکستان ہاؤس اور 21 دنوں تک کوئٹہ کے شیخ زید ہسپتال میں واقع قرنطینہ مرکز میں رہے۔
انہوں نے بتایا کہ قرنطینہ مراکز میں انتظامات مناسب تھے مگر فائیو سٹار ہوٹل والی اتنی سہولیات بھی نہیں تھیں جتنی حکومت بتا رہے ہیں۔ ہم سینکڑوں زائرین کو حکومت کی جانب سے سلیپنگ بیگز، بچوں کے لیے خشک دودھ، ڈائپرز، کبھی کبھی جوس وغیرہ مل جاتا تھا۔ کھانے میں کبھی بریانی کبھی قورمہ اور ناشتے میں چائے کے ساتھ پراٹھا دیا جاتا تھا۔
دوسری جانب صوبائی وزیر داخلہ و پی ڈی ایم اے ضیا لانگو کا کہنا ہے کہ سامان کی خریداری کورونا کی پہلی لہر کے دوران ہنگامی حالت میں کی گئی۔ اس وقت عام حالات نہیں تھے بلکہ مارکیٹ میں طبی سامان اور اشیایہ ضرورت کی قلت تھی۔ مجبوراً پی ڈی ایم اے کو مہنگے داموں چیزیں خریدنی پڑیں۔
ان کے مطابق خریداری کے لیے باقاعدہ کمیٹی بنائی گئی تھی جس میں پی ڈی ایم اے کے علاوہ محکمہ خزانہ اور محکمہ صحت کے لوگ بھی شامل تھے۔
ضیا لانگو کے مطابق کورونا متاثرین کو ہم نے صرف دوائی نہیں دینی تھی انہیں علیحدہ رکھنا بھی ضروری تھا۔ ٹینٹ لگانے کے لیے کیل بھی لگانے ہوتے ہیں۔ تفتان میں کوئی چیز نہیں مل رہی تھی، اشیا کی خریداری کوئٹہ اور باقی شہروں سے کی گئی جس کی وجہ سے ٹرانسپورٹیشن کے اضافی اخراجات بھی ہوئے۔
ان کا کہنا تھا کہ قرنطینہ مراکز میں موجود افراد کو تفریح کا سامان بھی مہیا کیا گیا کیونکہ اس وقت وہ ذہنی طور پر شدید دباؤ میں تھے۔

اپوزیشن نے صوبائی حکومت سے فنڈز کے استعمال میں بے ضابطگی کی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔ (فائل فوٹو: روئٹرز)

ثناء بلوچ کا کہنا ہے کہ بلوچستان حکومت کی جانب سے کورونا وبا سے نمٹنے کے لیے گزشتہ ڈیڑھ سالوں میں چھ ارب روپے سے زائد خرچ کیے گئے ہیں۔ بلوچستان میں سوائے فاطمہ جناح ہسپتال کے کسی ہسپتال میں کورونا کے مریضوں کا علاج نہیں ہو رہا۔ باقی ہسپتالوں میں بہت کم تعدا میں مریض رہے زیادہ تر لوگوں نے اپنا سارا علاج اپنے گھر میں کیا۔ بتایا جائے کہ یہ ساری چیزیں کہاں گئیں اور کون لوگ اپنے ساتھ لے گئے؟
ثناء بلوچ کے مطابق بلوچستان میں پیسہ اڑانے کا سب سے آسان طریقہ یہی ہے۔ صابن، ڈائپرز اور کھانے پینے کی چیزوں کا اب کیسے حساب کیا جائے گا۔ ان کو پتا ہے کہ کل کوئی پوچھے گا تو یہ بتائیں گے کہ یہ لوگوں نے استعمال کر لیے۔
ان کا کہنا ہے کہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی اور احتساب کے اداروں کے ذریعے کورونا فنڈز کا خصوصی آڈٹ ہونا چاہیے اور پتا لگانا چاہیے کہ اس سے کن لوگوں کو فائدہ ہوا؟
دوسری جانب آڈیٹر جنرل آف پاکستان نے بھی پی ڈی ایم اے کی جانب سے آفات کے دوران ہنگامی خریداری کے طریقہ کار پر آڈٹ پیراز لگاتے ہوئے ذمہ داران کے تعین کے لیے تحقیقات کی سفارش کی ہے۔
آڈیٹر جنرل کی پی ڈی ایم اے کی آڈٹ رپورٹ برائے سال 2019-20 میں سات کروڑ روپے زائد کی بے ضابطگیوں کی نشاندہی کی ہے۔

آڈٹ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ وبا کے دوران عارضی بھرتیاں بھی طریقہ کار کے تحت نہیں کی گئیں۔ (فوٹو: سکرین گریب)

آڈٹ رپورٹ کے مطابق خوراکی اشیا، فرنیچر، واک تھر و گیٹس کی خریداری، گاڑیوں کی مرمت، ٹریکنگ نظام، ٹرانسپورٹیشن کی مد میں 7 کروڑ روپے سے زائد کی رقم صوبائی حکومت، پی ڈی ایم اے اور پیپرا کے قواعد و ضوابط کے بغیر خرچ کیے گئے۔ عارضی بنیادوں پر بھرتیاں بھی مجاز حکام کی اجازت کے بغیر کی گئیں۔
اردو نیوز کو دستیاب آڈٹ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کی جاری کردہ ہدایات میں خطرات اور اضلاع کی آبادی کی بنیاد پر کم سے کم امدادی و خوراکی سامان ذخیرہ رکھنے کی مقدار مقرر کی گئی ہے مگر پی ڈی ایم اے کے پاس مالی سال 2018-19 کے دوران سامان ناکافی مقدار میں تھا اس لیے خشک سالی، بارش اور برفباری کے متاثرین کے لیے خوراک اور دیگر سامان کی خریداری اور ترسیل وضع شدہ طریقہ کار کے بغیر کی گئی۔
آڈٹ حکام کا کہنا ہے کہ پی ڈی ایم اے کا یہ جواز درست نہیں کہ ہنگامی حالت میں متاثرین کی تعداد زیادہ تھی اور ذخیرہ کم تھا اس لیے خریداری کا وضع شدہ طریق کار پر عمل مشکل تھا اور ہنگامی بنیادوں پر امدادی سامان کے بندوبست کے لیے اور فوری سپلائی کے لیے کوٹیشن کا طریقہ اختیار کیا گیا۔

آڈیٹر جنرل کی رپورٹ کے مطابق فی ماسک 800 روپے کے حساب سے لاکھوں ماسک خریدے گئے۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

رپورٹ کے مطابق محکمہ خزانہ نے بھی ریلیف فنڈز کے لئے سالانہ تین ارب روپے مختص ہونے کے باوجود بروقت فنڈز جاری نہیں کیے۔
رپورٹ میں سلیپنگ بیگز، خیمے، کشتیاں، کمبل اور خوراکی سامان کی خریداری کے بعد لیبارٹری ٹیسٹ اور تکینکی معائنہ کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔
رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ پی ڈی ایم اے سالانہ منصوبہ بندی، خوراک اور دیگر اشیائے ضرورت کا سٹاک رکھنے، ہنگامی حالات میں امدادی سامان کی فراہمی کے لیے پیشگی طور پر اہل سپلائرز کوشارٹ لسٹ کرنے میں ناکام رہا جس کی وجہ سے آفات کے دوران غیر کفایتی خریداری کی گئی۔ یہ منصوبہ بندی اور آفات سے نمٹنے کی تیاری کے فقدان کو ظاہر کرتا ہے۔
آڈیٹر جنرل کی رپورٹ کے مطابق پی ڈی ایم اے بلوچستان کے قیام کا مقصد وسائل کے مؤثر استعمال کو یقینی بنا کر آفات کی روک تھام اور تباہی کے خطرات کو کم کرنا ہے، اس کے لیے پی ڈی ایم اے کو سالانہ بنیادوں پر منصوبے بنانے کی ذمہ داری دی گئی ہے مگر یہ دیکھا گیا ہے کہ پی ڈی ایم اے کی سرگرمیوں کا زیادہ زور آفت کے بعد بحالی کے کاموں پر ہے۔

شیئر: