Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جلد امارت اسلامیہ کے قیام کا اعلان کرنے والے ہیں: طالبان

افغانستان کے اعلی اہلکار کے مطابق صدر اشرف غنی ملک چھوڑ کر چلے گئے ہیں جبکہ طالبان نے اپنے جنگجوؤں کو افغانستان کے دارالحکومت کابل میں داخل ہونے اور شہر کی سکیورٹی سنبھالنے کا حکم دے دیا ہے۔ 
طالبان قیادت کی جانب سے افغانستان میں داخلے کے حکم کے بعد طالبان جنگجو دارالحکومت میں داخل ہوگئے۔ خبر رساں ادارے روئٹرز نے دو طالبان کمانڈروں کے حوالے سے بتایا ہے کہ طالبان نے افغان صدارتی محل ارگ کا کنٹرول سنبھال لیا ہے. تاہم ابھی تک افغان حکومت کی جانب سے اس کی تصدیق نہیں کی گئی ہے۔
ایسو سی ایٹڈ پریس کے مطابق ’طالبان بہت جلد کابل کے صدارتی محل سے ’امارت اسلامیہ افغانستان‘ کے قیام کا اعلان کریں گے۔‘  خیال رہے 2001 میں امریکی قبضے سے قبل طالبان حکومت کا نام ’امارت اسلامیہ افغانستان‘ تھا۔
دوسری جانب طالبان ترجمان نے بتایا کہ طالبان جنگجو کئی اطراف سے کابل میں داخل ہوگئے۔ ذبیح اللہ مجاہد کا ٹوئٹر پر کہنا تھا کہ ’امارت اسلامیہ کے ملٹری یونٹ سکیورٹی یقینی بنانے کے لیے کابل میں داخل ہوگئے ہیں اور ان کی پیش قدمی معمول کے مطابق جاری ہے۔‘
خبر رساں ادارے اے ایف پی نے بھی تین سینئر طالبان رہنماؤں کے حوالے سے بتایا ہے کہ ان کا صدارتی محل پر قبضہ ہوگیا ہے۔  ایک طالبان کمانڈر نے اے ایف پی کو بتایا ’مجاہدین صدارتی محل میں داخل ہو گئے ہیں اور اس کا کنٹرول سنبھال لیا ہے۔‘ ایک اور کمانڈر کا کہنا ہے کہ کابل کی سکیورٹی کے حوالے سے ایک اجلاس صدارتی محل میں چل رہا ہے۔
اس سے قبل اافغانستان کی سپریم نیشنل ری کنسلییشن کونسل کے چیئرمین عبداللہ عبداللہ نے اپنے ایک پیغام میں کہا تھا کہ ’سابق صدر‘ اشرف غنی اس مشکل وقت میں ملک چھوڑ کر چلے گئے۔  ’ایک سخت دن اور رات جلد گزر جائیں گے اور لوگ  جلد امن دیکھیں گے۔‘
انہوں نے  اشرف غنی کو ’سابق  صدر‘ کہتے ہوئے کہا کہ وہ ملک چھوڑ کر چلے گئے ہیں۔
افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اپنے ٹوئٹر اکاؤٹ سے ’امارت اسلامیہ‘ کا بیان شیئر کیا تھا جس میں طالبان جنگجوؤں کو شہر میں داخلے کی ہدایت کے ساتھ تاکید کی گئی ہے کہ وہ  کسی کے گھر میں داخل نہ ہوں، کسی کو ہراساں نہ کریں اور نہ ہی کسی قسم کا نقصان پہنچائیں۔ 

ذبیح اللہ مجاہد کا ٹوئٹر پر کہنا تھا کہ ’امارت اسلامیہ کے ملٹری یونٹ سکیورٹی یقینی بنانے کے لیے کابل میں داخل ہوگئے ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)

بیان میں مزید کہا گیا تھا کہ ’ اس سے  قبل امارات اسلامی کی جانب سے آج صبح یہ پیغام دیا گیا  تھا کہ طالبان جنگجو کابل میں نہ داخل ہوں لیکن اب یہ رپورٹس موصول ہو رہی ہیں کہ پولیس نے سکیورٹی فراہم کرنے کا کام چھوڑ دیا ہے، وزارتیں خالی ہو گئی ہیں، اور کابل کی سیکیورٹی ادارے کے افسران بھاگ گئے ہیں۔
’عام چور اور ڈاکوؤں کا اسیی صورتحال سے فائدہ نہ اٹھائیں اور لوگوں کو نقصان نہ پہنچائیں، تو اسلامی امارت نے اپنے جنگجوؤں کو حکم دیا ہے کہ اسی رستے سے کابل میں داخل ہوں جہاں سے دشمن نکلے تھے۔‘

امریکی شہریوں کے لیے سفارت خانے کا انتباہ

برطانوی  خبر رساں ادارے بی بی سی کے مطابق  امریکی سفارت خانے  کی جانب سے جاری کیے گئے ایک سیکورٹی  الرٹ میں کہا گیا ہے کہ کابل ایئر پورٹ پر فائرنگ کی اطلاعات ہیں۔
امریکی سفارت خانے کے عہدے داروں نے امریکی شہریوں کو محفوظ مقام پر رہنے کی ہدایت جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’کابل کی صورتحال تیزی سے بدل رہی ہے۔
یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر کسی بھی امریکی شہری کو کابل چھوڑنے کے لیے مدد کی ضرورت ہے تو وہ سفارت خانہ بند ہونے کے بعد آن رجسٹریشن کرائے۔
قبل ازیں طالبان نے ترجمان نے کہا تھا کہ ان کے جنگجو شہر میں داخل نہیں ہوں گے اور وہ پرامن انتقال اقتدار کا انتظار کریں گے۔ 
انہوں نے مرکزی حکومت سے غیر مشروط طور پر ہتھیار ڈالنے کا مطالبہ بھی کیا تھا۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس نے افغان حکام کے حوالے سے بتایا تھا کہ افغان حکام نے بگرام ایئربیس طالبان کے حوالے کر دیا ہے جہاں پانچ ہزار سے زائد قیدی موجود ہیں
اتوار کی سہ پہر کع قائم مقام وزیر داخلہ عبدالستار مرزاکوال نے اقتدار پرامن طریقے سے عبوری حکومت کو منتقل کرنے کا اعلان کیا تھا۔
خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق وزیر داخلہ نے ایک ویڈیو پیغام میں کہا تھا کہ ’افغان عوام کو گھبرانے کی ضرورت نہیں، کابل شہر پر حملہ نہیں ہوگا اور عبوری حکومت کی اقتدار کی منتقل پُرامن طریقے سے ہوگی۔
ویڈیو پیغام میں وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے بات چیت ہوئی ہے اور کابل پر حملہ نہ کرنے کا معاہدہ طے پایا ہے۔
قائم مقام وزیر داخلہ عبدالستار مرزاکوال کا کہنا تھا کہ ملک میں عبوری حکومت کو اقتدار کی پرامن منتقلی کے لیے صدارتی محل میں مذاکرات ہو رہے ہیں۔
خیال رہے اتوار کی صبح  طالبان جنگجو کابل کے مضافات میں داخل ہوگئے  تھے جس کے بعد اکا دکا فائرنگ کی آوازیں آتی رہی تھی تاہم دارالحکومت کابل کی گلیوں میں خاموشی تھی۔
 

طالبان کے کابل داخلے کی اطلاع پر مختلف اداروں میں کام کرنے والے سرکاری اہلکار اپنے آفس سے بھاگ گئے تھے اور شہر کے اوپر دھویں کے بادل چھا گئے تھے کیونکہ مختلف سفارت خانوں نے اہم دستاویزات جلا دی تھیں۔ 
طالبان کے ترجمان سہیل شاہین نے قطری ٹی وی چینل کو بتایا تھا کہ طالبان کابل شہر کی پرامن منتقلی کا انتظار کر رہے ہیں۔
تاہم انہوں نے طالبان اور حکومت کے درمیان کسی طرح کے مذاکرات کی تفصیل دینے سے انکار کیا تھا۔ لیکن جب بار بار پوچھا گیا کہ طالبان کس قسم کا معاہدہ چاہتے ہیں تو انہوں نے کہا تھا کہ ’ہم مرکزی حکومت سے غیر مشروط سرنڈر چاہتے ہیں۔
سہیل شاہین کا بی بی سی سے گفتگو میں کہنا تھا کہ طالبان آئندہ چند دنوں میں پرامن انتقال اقتدار کی توقع کر رہے ہیں۔ ‘ہم لوگوں کو یقین دلاتے ہیں خصوصا کابل کے رہائشیوں کو کہ ان کی جائیدادیں اور جانیں محفوظ ہیں۔‘
’ہماری قیادت نے فورسز کو حکم دیا ہے کہ وہ شہر کے اندر داخل نہ ہو بلکہ شہر کے داخلی دروازوں پر رہیں۔‘ شہیل شاہین نے کہا کہ ‘ہم پرامن انتقال اقتدار کا انتظار کر رہے ہیں جو کہ دنوں کے اندر ہو جائے گا۔‘
ایک افغان عہدیدار نے نام نہ لینے کی شرط پر اے پی کو بتایا تھا کہ طالبان مذاکرات کار افغان صدارتی محل روانہ ہو گئے ہیں۔ تاہم یہ ابھی تک واضح نہیں کہ انتقال اقتدار کب تک ہوگا۔
ایک اور افغان عہدیدار نے کہا تھا کہ افغان حکومت کی جانب سے مذاکرات سابق صدر حامد کرزئی اور افغان اعلیٰ مصالحتی کونسل کے سربراہ عبداللہ عبداللہ کر رہے ہیں۔ عہدیدار نے بتایا تھا کہ عبداللہ عبداللہ اور حامد کرزئی بظاہر تناؤ میں نظر آرہے تھے۔

اشرف غنی کا افغان فوج کو کابل کی سکیورٹی سنبھالنے کا حکم

افغانستان چھوڑ جانے سے قبل اتوار کو صدر اشرف غنی نے افغان فوج پر زور دیا تھا کہ وہ دارالحکومت کابل کی سکیورٹی کو یقینی بنایں۔

افغان حکومت کی جانب سے مذاکرات سابق صدر حامد کرزئی اور افغان اعلیٰ مصالحتی کونسل کے سربراہ عبداللہ عبداللہ کر رہے ہیں۔ (فوٹو: اے پی)

اشرف غنی نے ویڈیو پیغام میں کہا تھا کہ ’یہ ہماری ذمہ داری ہے اور ہم بہتریںن انداز میں اسے سرانجام دیں گے۔ جو بھی انتشار یا لوٹ مار کرنے کا سوچے گا، اس سے طاقت کے ذریعے نمٹا جائے گا۔‘

امریکی سفارتی عملہ سفارت خانے سے کابل ایئرپورٹ منتقل

ایک امریکی عہدیدار نے اے پی کو بتایا تھا کہ افغانستان میں امریکی سفارت کاروں کو سفارت خانے سے کابل ایئرپورٹ منتقل کیا جارہا ہے۔
عہدیدار کے مطابق امریکی فوجی ہیلی کاپٹرز سفارت خانے اور ایئرپورٹ کے درمیان پروازیں کر رہے ہیں۔ ان کے مطابق سفارت خانے کا بنیادی عملہ صورتحال واضح ہونے تک ایئرپورٹ پر رہے گا۔
خیال رہے گزشتہ چند دنوں کے دوران طالبان کی ڈرامائی پیش قدمی کے بعد سفات خانے کے اہم عملے کو ایئرپورٹ منتقل کرنا امریکہ کی ہنگامی منصوبے کا حصہ تھا۔

افغانستان کے معاملات میں مداخلت کی نہ کریں گے، ہم امن چاہتے ہیں: پاکستان 
 

اتوار کو ہی پاکستان کے وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے ملتان میں پریس کانفرس سے خطاب کرتے ہوئے کہا  تھا کہ ہم نے افغانستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کی نہ کریں گے، ہم امن چاہتے ہیں۔ شاہ محمو د قریشی نے کہا کہ ’پاکستان بارہا یہ کہتا آیا ہے کہ افغانستان کے مسئلے کا کوئی عسکری حل نہیں ہے، اس موقف کو دنیا نے تسلیم کیا ۔ ’

یہ وزیراعظم عمران خان کی سالہا سال پرانی پوزیشن ہے۔ دنیا اور پاکستان اس وقت ایک پیج پر ہیں۔‘  ’افغانستان کے عوام امن چاہتے ہیں ۔ وہ نقل مکانی نہیں کرنا چاہتے۔ ہماری خواہش یہی ہے کہ گفت و شنید سے یہ مسئلہ حل ہو ۔ ‘

شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے کہ پاکستان نے افغانستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کی نہ کرے گا۔ (فوٹو: اے ایف پی)

انہوں نے کہا کہ ’پاکستان افغانستان امن عمل کا حصہ رہا ۔ پاکستان نے اس حوالے سے ہوئی تمام پیش رفتوں میں مثبت کردار ادا کرنے کی کوشش کی ۔ میں عاشورے کے فوراً  بعد میں وزیراعظم کے حکم پر اپنے ہمسایہ ممالک سے افغانستان کی بہتری، امن اوراستحکام کے لیے رابطہ کروں گا ۔‘
’برطانیہ کے وزیرخارجہ آج مجھ سے رابطہ کر رہے ہیں اورافغانستان کے اہم رہنماؤں کا وفد پاکستان  آ رہا ہے ۔ امکان یہی  ہے کہ ان کے ساتھ میری ملاقات ہو گی۔‘ ’افغانستان کی صورت حال بہت تیزی سے بدل رہی ہے ۔ اس میں ہمیں بڑی ذمہ دارانہ طریقے سے اپنا رول ادا کرنا ہے۔‘
قریشی کا کہنا تھا کہ ’ہم نے افغانستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کی نہ کریں گے ۔ وہاں ہمارا کوئی فیورٹ نہیں ۔ افغان مل بیٹھ کر جو فیصلہ کریں گے ، ہم اس پر ’آمین‘ کہیں گے۔‘ 

شیئر: