Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

طالبان کا گھیرا تنگ: افغانستان سے نکلنے کا واحد راستہ کابل ایئرپورٹ

جیسے جیسے طالبان کا گھیرا تنگ ہو رہا ہے ویسے ہی قطاریں لمبی ہوتی جا رہی ہیں (فوٹو اے پی)
جوں جوں طالبان افغانستان کے دارالحکومت کابل کے گرد گھیرا تنگ کر رہے ہیں، افغانستان سے نکلنے والوں اور امریکی سفارت کاروں کی حفاظت کے لیے آنے والے امریکی فوجیوں کے لیے کابل انٹرنیشنل ایئرپورٹ ہی صرف ایک واحد راستہ بچا ہے۔
امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق ملک سے باہر جانے والے افراد ٹرمینل کے باہر پارکنگ میں موجود ٹکٹ کاؤنٹر پر پہنچتے ہیں۔ ان کے سامان کی ٹرالیاں کارپٹس، ٹی وی سیٹس سے لدی ہوئی ہیں اور وہ سامان کا وزن کم کرنے کے لیے اپنے کپڑوں کو ہینڈ بیگز میں ٹھونس رہے ہیں۔
یہ وہ خوش قسمت افراد جنہوں نے ملک سے باہر جانے کے لیے ٹکٹ حاصل کر لیے ہیں انہیں اب ٹرمینل تک پہنچنے کے لیے مزید تین گھنٹے انتظار کرنا ہوگا اور بھیگی آنکھوں کے ساتھ اپنے پیچھے رہ جانے والے پیاروں کو الودع کہہ رہے ہیں۔
جیسے جیسے طالبان کا گھیرا تنگ ہو رہا ہے ویسے ہی قطاریں لمبی ہوتی جا رہی ہیں اور افراتفری بڑھ رہی ہے۔
بیوی اور پانچ بچوں کے ساتھ ترکی جانے والے اور نیٹو کے لیے سب کنٹریکٹر کے طور پر کام کرنے والے نوید عظمیٰ کا کہنا تھا کہ ’میں نے نئی زندگی شروع کرنا ہے  اس لیے جو کچھ پیک کر سکتا تھا کیا تاکہ اس جنگ سے دور نئی زندگی شروع کر سکوں۔‘
کابل انٹرنیشنل ایئرپورٹ شہر کے شمال مشرق میں ہے اور اس کا واحد رن وے ملٹری کے جہازوں کی لینڈنگ کے لیے کافی لمبا ہے۔ تاہم ایئر فیلڈ پر ایک سو جہازوں کی گنجائش ہے۔
عام دنوں میں آپ کو اس ایئرپورٹ پر بزنس سوٹ اور روایتی لباس پہنے لوگ نظر آئیں گے، لیکن اب وہاں افراتفری کے شکار مسافر نظر آرہے ہیں جنہیں کابل چھوڑنے کی جلدی ہے۔
ایئرپورٹ حکام کا کہنا ہے کہ افغان ایئرلائنز آریانا اور کام ایئر کی سیٹیں کم از کم ایک ہفتے کے لیے بک ہو چکی ہیں، جن کے پاس ٹکٹ ہیں انہیں کے پاس کورونا کا منفی ٹیسٹ ہونا بھی ضروری ہے۔

افغان ایئرلائنز آریانا اور کام ایئر کی سیٹیں کم از کم ایک ہفتے کے لیے بک ہو چکی ہیں (فوٹو اے پی)

بگرام ایئر بیس کو خالی کرنے بعد اب امریکہ کے لیے اپنے لوگوں کو افغانستان سے نکالنے کا واحد راستہ کابل ایئرپورٹ ہی بچا ہے۔
بزنس مین فرید احمد یونسی کا کہنا ہے کہ انہوں نے اس ایئرپورٹ پر پہلے کبھی اتنا رش  نہیں دیکھا۔ ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے اپنے 10 لاکھ ڈالر مالیت کی کمپنی کو چھوڑ کر قندھار سے بھاگا کیونکہ بقول ان کے طالبان ان کو تلاش کر رہے ہیں۔ ’اب طالبان کے پاس وہ سب کچھ ہے جسے میں نے 20 سال کی جدوجہد کے بعد بنایا تھا۔‘
اب جب کہ طالبان کابل کی دہلیز پر پہنچ چکے ہیں افغان اور امریکی اہلکار ملک سے  خشکی کے راستے باہر جانے کا خطرہ نہیں مول سکتے۔ سنیچر کو طالبان نے قریبی لوگر صوبے پر مکمل قبضہ کرکے کابل کے گرد اپنا شکنجہ مزید کس لیا اور اب وہ دارالحکومت سے صرف سات میل کے فاصلے پر ہیں۔
جمعے کی رات کو ایئرپورٹ پر موجود افراد نے بتایا کہ انہوں نے قندوز سے کابل تک سفر کے لیے گاڑی والوں کو 375 ڈالرز دیے جو کہ عام دنوں میں یہ سفر صرف 40 ڈالر میں ہوتا ہے۔ ان کے مطابق کابل پہنچنے کے لیے انہوں نے کچے اور غیر معروف راستوں کا انتخاب کیا تاکہ مین روڈ پر طالبان چیک پوسٹوں سے بچ سکیں۔

کابل ایئرپورٹ کی تاریخ جدید افغانستان کے حالات کی عکاس ہے (فوٹو اے پی)

یونس باغبان نامی ایک مسافر نے اے پی کو بتایا کہ ’کار والے سفر کے دوران کہیں رکتے نہیں۔ اگر آپ کہیں چند لمحوں کے لیے بھی رگ گئے تو پھر آپ گئے۔‘
کابل ایئرپورٹ کی تاریخ جدید افغانستان کے حالات کا عکاس ہے۔
ساٹھ کی دہائی میں سویت یونین کے انجینیئرز نے ایئرپورٹ کو بطور تحفہ تعمیر کیا۔ جب کہ امریکہ نے بھی سرد جنگ کے دوران افغانستان کے ایئرفیلڈز کی تعمیر میں مدد کی۔ 1979 میں سویت یونین کے افغانستان پر قبضے کے بعد ایئرپورٹ سویت یونین کا اہم فوجی ایئر بیس بن گیا۔  اس کے بعد افغان گروپوں کی آپس کی لڑائی کے دوران اسے نقصان پہنچا۔
امریکہ کی جانب سے 2001 میں افغانستان پر حملے کے دوران یہ ایئرپورٹ امریکی فضائی حملوں کا نشانہ بنا۔
تاہم افغانستان پر امریکی اور اتحادیوں کے قبضے کے بعد مغرب نے اس کی تعمیر نو کے لیے کروڑوں ڈالرز دیے اور اسے بارودی سرنگوں اور ناکارہ بموں سے صاف کیا۔

مسافروں کو خدشہ ہے کہ طالبان کسی بھی وقت کابل پر قبضہ کرکے اسے بند کر سکتے ہیں (فوٹو اے پی)

اس وقت ایئرپورٹ پر کمرشل پروازیں جاری ہیں۔ ایئر انڈیا، ایمریٹس، فلائی دبئی، پی آئی اے اور ترکش ایئرلائنز کی ائندہ دنوں کے لیے کابل کے لیے فلائٹیں شیڈول ہیں۔ مقامی افغان ایئرلائنز کی پروازیں بھی جاری ہے۔
تاہم مسافروں کو خدشہ ہے کہ طالبان کسی بھی وقت کابل پر قبضہ کرکے اسے بند کر سکتے ہیں۔

شیئر: