Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سینیٹ انتخابات ’آئین کے تحت‘، سپریم کورٹ کی رائے

سپریم کورٹ نے رائے دی کہ ووٹنگ میں کس حد تک سیکریسی ہونی چاہیے یہ تعین کرنا الیکشن کمیشن کا کام ہے۔(فوٹو: سینیٹ آف پاکستان)
سینیٹ انتخابات سے متعلق صدراتی ریفرنس پر سپریم کورٹ نے اپنی تفصیلی رائے جاری کر دی۔
خیال رہے سینیٹ انتخابات سے قبل صدر مملکت  نے سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ کے ذریعے کرانے کے حوالے سے رائے مانگی تھی۔
سپریم کورٹ کی جانب سے رائے ایک کے مقابلے میں چار سے دی گئی  پے۔ جسٹس یحیی آفریدی نے الگ سے نوٹ تحریر کیا ہے۔
اپنی تفصیلی رائے میں سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ آئین کے آرٹیکل 186 کے تحت سپریم کورٹ کو ایڈوائزری دائرہ اختیار حاصل ہے اور آرٹیکل 186 کے تحت صدر سپریم کورٹ سے قانونی رائے لے سکتا ہے۔
سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ آئین کے آرٹیکل 226 کے تحت وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ کے علاوہ تمام انتخابات خفیہ ہوں گے۔ ’آئین کے آرٹیکل 226 کی قانونی طور پر کوئی اور تشریح نہیں ہو سکتی۔‘
سینیٹ انتخابات قانون کی بجائے آئین کے تحت ہوں گے۔ سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ سے نہیں کروائے جا سکتے۔ تاہم سپریم کورٹ نے قرار دے دیا کہ الیکشن کمیشن شفاف الیکشن کے لیے تمام اقدامات کر سکتا ہے اور انتخابی عمل سے کرپشن ختم کرنا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے۔
الیکشن کمیشن کرپشن کے خاتمے کے لیے ٹیکنالوجی کا بھی استعمال کر سکتا ہے۔  الیکشن کمیشن کے پاس اختیار ہے کہ وہ کرپٹ پریکٹس کے خلاف کارروائی کرے۔  تمام ایگزیکیٹو اتھارٹیز الیکشن کمیشن سے تعاون کی پابند ہیں۔
ووٹنگ میں کس حد تک سیکریسی ہونی چاہیے یہ تعین کرنا الیکشن کمیشن کا کام ہے۔‘
جسٹس یحیی آفریدی نے اپنے نوٹ میں لکھا ہے کہ سینیٹ انتخابات سے متعلق صدارتی ریفرنس میں قانونی مسئلہ نہیں۔ ’سینیٹ انتخابات سے متعلق صدارتی ریفرنس میں سپریم کورٹ سے رائے نہیں لی جاسکتی۔‘
صدر مملکت کی جانب سے بھیجا گیا ریفرنس رائے دییے بغیر واپس بھیجا جانا چاہیے تھا۔
خیال رہے یکم مارچ کو سپریم کورٹ نے کیس کا مختصر فیصلہ سنایا تھا۔ چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بنچ نے فیصلہ سنایا تھا۔

شیئر: