Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

نائن الیون کے 20 برس بعد طالبان اور القاعدہ میں تعلقات کیسے ہیں؟

تحریک طالبان کا یہ فیصلہ کہ ایک سپریم لیڈر ہونا چاہیے، مختلف گروہوں کو مربوط رکھنے میں اہم ثابت ہوا۔(فائل فوٹو: اے ایف پی)
افغان طالبان رہنما نجی طور پر تو کہتے ہیں کہ انہوں نے القاعدہ کی خاطر کافی قربانیاں دی ہیں لیکن انہوں نے کبھی کھلے بندوں یہ بات تسلیم نہیں کیا کہ انہوں نے القاعدہ کے سابق رہنما اسامہ بن لادن کو پناہ دی یا یہ کہ افغانستان کو نائن الیون اور دوسرے حملوں کی تیاری کے لیے استعمال کیا گیا تھا۔
عرب نیوز میں شائع سینیئر صحافی رحیم اللہ یوسف زئی کے مضمون کے مطابق طالبان اس بارے میں یہ دلیل بھی دیتے ہیں کہ وہ نائن الیون کے حملوں کے بعد افغانستان پر امریکی حملے کے نتیجے میں اپنی طاقت کھو بیٹھے تھے، کیونکہ بش انتظامیہ نے اکتوبر 2001 میں القاعدہ کو تباہ کرنے اور اسامہ بن لادن کو پناہ دینے کی وجہ سے طالبان کو اقتدار سے بے دخل کرنے کے لیے انتقامی حملے کا آغاز کیا تھا۔
طالبان نے نجی اور عوامی طور پر جو موقف اختیار کیا ہے اس کے درمیان فرق ظاہر کرتا ہے کہ ملا محمد عمر کی طرف سے قائم کیا گیا یہ اسلام پسند گروپ حملوں کی ذمہ داری نہیں لینا چاہتا- ان کے انکار کا مطلب یہ تھا کہ طالبان درحقیقت اس سب سے بے خبر تھے جب امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا۔
ابھی یہ بات واضح نہیں ہے کہ کیا طالبان نائن الیون کے بعد کے 20 سال میں القاعدہ سے وابستہ رہے ہیں یا نہیں، تاہم امریکہ اور اقوام متحدہ یہ دعویٰ کرتے آئے ہیں کہ طالبان نے القاعدہ سے اپنے تعلقات منقطع نہیں کیے۔ انہوں نے القاعدہ کے ایسے ارکان اور ان سے وابستہ افراد کے نام بھی فراہم کیے ہیں جو افغانستان کے مختلف صوبوں میں طالبان کے ہمراہ لڑتے ہوئے ہلاک ہوئے ہیں۔
طالبان نے ان دعوؤں کو پروپیگنڈا قرار دیا ہے اور ان کی تردید جاری کی ہے۔ یہ ردعمل حیران کن نہیں ہے کیونکہ 29 فروری 2020 میں طالبان اور امریکہ کے درمیان ہونے والے طالبان دوحہ امن معاہدے کی شرائط کے تحت طالبان کو القاعدہ سے خود کو الگ کرنا لازم قرار پایا تھا۔

طالبان کا القاعدہ کے ساتھ شروع سے ہی ایک پیچیدہ اور متنازع سا تعلق تھا جس کے بارے میں متضاد آرا تھیں (فائل فوٹو: اے ایف پی)

طالبان کا القاعدہ کے ساتھ شروع سے ہی ایک پیچیدہ اور متنازع سا تعلق تھا جس کے بارے میں متضاد آرا تھیں کہ آیا ان میں سے کون کس کو کنٹرول کرتا ہے۔ عام مغربی نکتہ نظر یہ تھا کہ القاعدہ نے طالبان کو فنڈز فراہم کیے اور انہیں منظم کیا لیکن طالبان رہنماؤں نے اس دعوے سے اختلاف کیا اور دلیل دی کہ وہ افغانستان میں اقتدار میں تھے اور بااختیار تھے۔
یہ تعلق کافی عجیب تھا کیونکہ طالبان افغان تھے۔ ان کی جنگی مہارت اور تین عالمی طاقتوں (برطانیہ، سوویت یونین اور امریکہ) سمیت دیگر حملہ آوروں کے خلاف مزاحمت کی شہرت تھی۔ دوسری جانب القاعدہ کے اراکین زیادہ تر مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے عرب تھے جو مختلف وجوہات سے متاثر ہو کر جنگ کے وقت افغانستان کی طرف کھنچے چلے آئے تھے۔

طالبان اور القاعدہ قیادت میں پہلی ملاقات


 اسامہ بن لادن اور طالبان قیادت کے درمیان پہلی ملاقات شکوک و شبہات کے ماحول میں ہوئی (فائل فوٹو: اے ایف پی)

دلچسپ بات یہ ہے کہ اسامہ بن لادن اور طالبان قیادت کے درمیان پہلی ملاقات شکوک و شبہات کے ماحول میں ہوئی۔ یہ ملاقات پہلی بار 26 ستمبر 1996 کو طالبان کے ہاتھوں سقوط کابل سے چند دن پہلے جلال آباد میں ہوئی تھی۔ ایک طالبان وفد جس کی قیادت ان کے ایک کمانڈر ملا محمد صادق جنہوں نے اپنے بیٹے کو جنگ لڑتے ہوئے کھو دیا تھا، نے کی تھی۔ انہیں اسامہ بن لادن کے گھر ان سے ملاقات اور ان کے مستقبل کے منصوبوں کے بارے میں جاننے کے لیے بھیجا گیا تھا۔
اس وقت کی طالبان قیادت کو کوئی اندازہ نہیں تھا کہ اسامہ بن لادن جلال آباد میں ہی رہیں گے یا پھر افغانستان چھوڑ دیں گے یا طالبان کے ہاتھوں شکست کا سامنا کرنے کے بعد فرار ہونے کی کوشش کرنے والے افغان مجاہدین کا ساتھ دیں گے۔ انہی دنوں طالبان جنگجوؤں نے جلال آباد پر قبضہ کیا تھا اور وہ کابل کی جانب بڑھ رہے تھے۔
رحیم اللہ یوسفزئی لکھتے ہیں کہ میں ملا صادق، اس وقت کے طالبان کے ڈپٹی لیڈر ملا محمد ربانی اور طالبان کے اعلٰی کمانڈر ملا بورجان کے درمیان بات چیت کا گواہ تھا جس کا مقصد یہ تھا کہ اسامہ بن لادن کے ساتھ مذاکرات سے پہلے طالبان کا ایک متفقہ موقف ترتیب دیا جا سکے۔
وہاں سب نے اسامہ بن لادن کے ارادوں کے بارے میں اپنے تحفظات کا اظہار کیا اور القاعدہ کے سربراہ کو طالبان کے زیر کنٹرول علاقوں میں رہنے کی اجازت سے قبل دوٹوک موقف اپنانے کا فیصلہ کیا۔ پھر بالآخر یہ مسئلہ حل ہو گیا جب اسامہ نے یقین دہانی کرائی کہ وہ طالبان کے وفادار رہیں گے اور ملا عمر کو امیر المومنین کے طور پر قبول کریں گے۔ اس کے فوراً بعد اسامہ بن لادن نے ملا عمر کی بیعت کی، جس کی اطلاع ایک انٹرویو کے ذریعے طالبان سربراہ کو پہنچائی گئی۔ رحیم اللہ یوسف زئی کے بقول وہ انٹرویو انہی نے کیا تھا۔
طالبان کے سپریم لیڈر کو امیر المومنین کہا جاتا تھا کیونکہ اس کے پاس اس گروپ سے متعلق ہر معاملے کا حتمی اختیار ہوتا تھا۔ وہ کسی کے سامنے جواب دہ نہیں تھا جبکہ ہر رکن اس کے سامنے جواب دہ تھا۔ اس کے فیصلوں کو بہرصورت ماننا ہوتا تھا اور اس کی نافرمانی گناہ کے مترادف تھی۔

تحریک طالبان میں کوئی بڑی تقسیم کیوں نہ ہو سکی؟


 27 برس کے اس طویل عرصے میں طالبان اپنے بعض اراکین کے حریف افغان مجاہدین گروپوں کی طرف راغب ہونے کے باجود بڑے پیمانے پر متحد رہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)

طالبان اور القاعدہ دونوں کو اگر کسی مشترک عنصر نے مضبوط اور باہم مربوط رکھا ہوا ہے تو یہ ان کی عسکری گروہوں کے طور پر متحد طریقے سے موجود رہنے کی صلاحیت ہے۔ بصورت دیگر یہ دونوں گروہ کئی بار تقسیم ہو سکتے تھے۔
جب 1994 کے موسم خزاں میں قندھار میں تحریک طالبان ابھری تو ان کا یہ فیصلہ کہ ایک سپریم لیڈر ہونا چاہیے، مختلف گروہوں کو مربوط رکھنے میں اہم ثابت ہوا۔
 27 برس کے اس طویل عرصے میں طالبان اپنے بعض اراکین کے حریف افغان مجاہدین گروپوں کی طرف راغب ہونے کے باجود بڑے پیمانے پر متحد رہے۔ مزید یہ کہ طالبان کے رہنماؤں نے مجاہدین کے دھڑوں اور امریکی زیر قیادت نیٹو افواج کے خلاف الگ الگ جنگیں شروع کرنے کے لیے سیاسی اور مالی ترغیبات کو مسترد کیا۔
اگرچہ تحریک طالبان میں ملا محمد رسول کی قیادت میں ہونے والی دھڑے بندی سمیت چند معمولی نوعیت کی تقسیمیں ہوئیں لیکن کوئی بھی اتنی بڑی تقسیم نہیں ہوئی جو اسے کمزور کر سکے اور اس کے خاتمے کا سبب بن سکے۔

طالبان کے تین سپریم لیڈرز


ملا عمر اس تحریک کے بانی تھے اور 2016 میں اپنی موت تک اس کے سپریم لیڈر رہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)

اب تک طالبان کے تین اعلیٰ رہنما رہے ہیں جن میں سے ایک ملا عمر تھے جو قندھار کے ایک گاؤں کے نیم خواندہ مولوی تھے۔ وہ اس تحریک کے بانی تھے اور 2016 میں اپنی موت تک اس کے سپریم لیڈر رہے۔ ان کی موت کو تقریباً دو سال تک خفیہ رکھا گیا کیونکہ دیگر طالبان رہنماؤں کو خدشہ تھا کہ سپریم لیڈر کی موت کے بعد یہ گروپ ٹوٹ سکتا ہے۔
دیگر دو سپریم لیڈر ملا اختر محمد منصور اور ہبت اللہ اخوندزادہ تھے۔ ملا اختر محمد منصور ایک متنازع کمانڈر تھے جو پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں ایک امریکی ڈرون حملے میں مارے گئے تھے جبکہ تیسرے سپریم کمانڈر ایک معزز مذہبی اسکالر شیخ ہبت اللہ اخوندزادہ ہیں جنہوں نے طالبان کو اپنی اب تک کی سب سے بڑی عسکری فتح کی راہ پر گامزن کیا ہے۔

اسامہ بن لادن کو امریکہ کے حوالے کرنے سے انکار


جب امریکیوں نے حملہ کیا تو القاعدہ نے پاکستان کے ساتھ متصل افغانستان کی سرحد پر تورا بورا جانے کا فیصلہ کیا (فائل فوٹو: اے ایف پی)

نائن الیون کے حملوں کے بعد ملا عمر نے اسامہ بن لادن کو امریکہ کے حوالے کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ اس وقت ملا عمر پر زبردست دباؤ ڈالا گیا  لیکن کوئی بھی ان کی سوچ بدل نہیں سکا تھا۔
اس وقت حکومت پاکستان جو طالبان کے قریب تھی، نے پاکستانی مذہبی علما اور فوج کی انٹر سروسز انٹیلیجنس (آئی ایس آئی) کے ذریعے طالبان پر دباؤ ڈالا کہ وہ اسامہ بن لادن کو امریکہ یا سعودی عرب کے حوالے کریں لیکن ایک بار پھر یہ کوششیں کامیاب نہ ہو سکیں۔
اس کے بعد افغانستان پر امریکی حملے کے نتیجے میں طالبان کو چند ہفتوں میں شکست ہو گئی کیونکہ اس کے جنگجوؤں کے پاس امریکی فضائی طاقت کا کوئی توڑ نہیں تھا تاہم شکست کے باوجود انہیں بہت زیادہ جانی نقصان نہیں ہوا۔ انہوں نے محض پسپائی اختیار کی اور دیہی آبادیوں میں گھل مل گئے۔
جب امریکیوں نے حملہ کیا تو القاعدہ نے پاکستان کے ساتھ متصل افغانستان کی سرحد پر تورا بورا جانے کا فیصلہ کیا۔اس وقت امریکیوں کو پتہ چلا کہ اسامہ بن لادن دسمبر 2001 میں وہاں موجود تھا تو پھر امریکہ نے وہاں بہت زیادہ بمباری کی۔
یوں ان واقعات کا سلسلہ امریکی حملے، طالبان حکومت کے خاتمے اور سیکڑوں طالبان جنگجوؤں کی ہلاکت پر اختتام پذیر ہوا۔ ملا عمر نے واضح کیا کہ اسلامی تعلیمات اسے کسی ساتھی مسلمان کو دھوکہ دینے اور حوالے کرنے کی اجازت نہیں دیتیں، چاہے اس شخص کے سر پر ایک کروڑ ڈالر کا انعام ہی کیوں نہ مقرر ہو۔

شیئر: