Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ویتنام اور افغانستان سے امریکی انخلا: افراتفری کی دو کہانیاں

افغانستان میں امریکی مشن کے آخری دنوں کے افراتفری کا موازنہ بڑے پیمانے پر 1975 میں سائیگون سے حتمی انخلا کے مناظر سے کیا گیا جب فاتح شمالی ویتنامی فوج ویتنام کے دارالحکومت میں داخل ہوئی۔
عرب نیوز میں شائع عبئی شاہ بندر کے مضمون میں افغانستان اور ویتنام سے امریکی انخلا کا موازنہ پیش کیا گیا ہے۔
عبئی شاہ بندر لکھتے ہیں کہ مایوس ویتنامی شہریوں کا امریکی سفارتخانے کی دیواروں پر سے چڑھنے کی یادگار تصاویر گزشتہ ماہ افغانستان سے نکلنے کے لیے شہریوں کے کابل ایئرپورٹ کے دروازوں پر چڑھنے سے مشابہت رکھتی ہیں۔
امریکہ نے 1973 میں شمالی ویتنام کے ساتھ پیرس امن معاہدے پر دستخط کرنے کے بعد تیزی سے فوجی انخلا کیا، اسی طرح فروری 2020 میں دوحہ میں طالبان اور امریکہ کے درمیان طے پانے والے معاہدے نے بھی امریکہ کے افغانستان سے فوری انخلا کا ماحول بنا دیا۔
1975 تک جنوبی ویتنام میں سفارتخانے کے تحفظ کے لیے صرف امریکی میرینز رہ گئے تھے اور قریبی ایئرپورٹ پر ایک فوجی دستہ تعینات تھا۔ اسی سال اپریل کے آخر میں نارتھ ویتنامیز آرمی نے سائیگون پر قبضہ کیا۔ جس کو بعد میں ہو چن من کا نام دیا گیا۔
امریکہ نے امید ظاہر کی تھی کہ امن معاہدہ ’ویتنامائزیشن‘ کی اجازت دے گا اور فوجی آپریشنز اور سکیورٹی کو امریکی فوج سے آرمی آف دی ریپبلک آف ویتنام کو منتقل کر دے گا۔
لیکن افغان نیشنل آرمی کی طرح، جن کی تربیت پر امریکہ نے اربوں ڈالر خرچ کیے لیکن وہ ملک کو محفوظ بنانے میں نااہل ثابت ہوئی، اسی طرح آرمی آف دی ریپبلک آف ویتنام بھی امریکہ کی زمینی یونٹس اور فیلڈ ایڈوائزرز کی غیر موجودگی میں ناکام ہو گئی تھی۔

امریکہ نے 1973 میں شمالی ویتنام کے ساتھ پیرس امن معاہدے پر دستخط کرنے کے بعد تیزی سے فوجی انخلا کیا۔ (اے ایف پی)

ویتنام جنگ کے خاتمے کے بعد ایک لمبے عرصے تک امریکہ اعتماد کے بحران سے دوچار دکھائی دیا، دنیا میں اس کے کردار، اقدار اور طاقت پر سوال اٹھائے گئے۔
انخلا سے پہلے سائیگون میں سی آئی اے کے آخری سابق سربراہ تھامس پولگر نے لکھا کہ سائیگون کے سٹیشن سے یہ آخری پیغام ہوگا۔ یہ ایک طویل اور سخت لڑائی تھی جس کو ہم نے ہارا۔ یہ تجربہ امریکی تاریخ میں منفرد تھا، یہ امریکہ کے بطور عالمی طاقت کے خاتمے کی جانب اشارہ نہیں کرتا۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’وہ جو تاریخ سے نہیں سیکھتے، وہ اسے دہرانے پر مجبور ہوتے ہیں۔ آئیں امید کرتے ہیں کہ ہم ایک اور ویتنام کا تجربہ نہیں کریں گے اور ہم نے اپنا سبق سیکھ لیا ہے۔ سائیگون سائننگ آف۔‘
سائیگون میں 60 کے دہائی کے آخر اور 70 کی دہائی کے آغاز کی طرح، کابل میں بھی حکومتیں امریکی حمایت یافتہ تھیں۔ یہ حکومتیں خود شورش کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی تھیں۔

1975 تک جنوبی ویتنام میں سفارتخانے کے تحفظ کے لیے صرف امریکی میرینز رہ گئے تھے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

ویتنام اور افغانستان دونوں کے مشنز میں وقت اور سٹرٹیجک تحمل کی کمی امریکہ کی بنیادی کمزوریاں تھیں۔
اگرچہ افغانستان کے مشن نے ویتنام کی جنگ کی طرح عوامی افراتفری اور سیاسی ابتری پیدا نہیں کی۔
وسطی ایشیا میں ثقافتی طور پر بعید ایک ملک میں غیرمعینہ مدت کے لیے فوج نہ رکھنے پر امریکی سیاستدانوں کے درمیان وسیع اتفاق رائے موجود تھا۔
 1975 کے بعد امریکہ اور ویتنام کے درمیان ایک سست مگر قابل ذکر ہم آہنگی دیکھی گئی۔
 20 سال کے عرصے میں دونوں ملک تعلقات قائم کرنے میں کامیاب ہوئے جو حقیقی سٹرٹیجک شراکت داری میں بدل رہے ہیں اور 2013 میں امریکہ اور ویتنام کے درمیان جامع شراکت داری کا معاہدہ ہوا۔

طالبان کے قبضے کے بعد کابل ایئرپورٹ پر ملک سے نکلنے کے لیے ایک بڑی تعداد جمع تھی۔ (فوٹو: اے ایف پی)

 1995 میں دوطرفہ تعلقات کے قیام کے بعد امریکہ اور ویتنام کے درمیان باہمی احترام پر مبنی تعلقات قائم ہیں۔ یہ تعلقات سیاسی، معاشی، سکیورٹی اور عوام کے درمیان روابط پر محیط ہیں۔
اب ہزاروں ویتنامی شہری امریکہ میں پڑھتے ہیں اور امریکی معیشت میں ایک بلین ڈالر کا حصہ ڈالتے ہیں۔
عرب نیوز سے بات کرتے ہوئے ہیریٹیج فاؤنڈیشن کے فیلو جیمز کارافانو نے بتایا کہ ’آج کا ویتنام ایک مختلف علاقہ ہے۔ ویتنامی چین سے خوفزدہ ہیں اور ان کو اپنے دفاع کے لیے امریکہ کی ضرورت ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ ویتنام جنگ کے فوری خوفناک نتائج تھے۔ جنوبی ویتنام میں بہت سارے لوگوں کو کیمپوں میں بھیجا گیا اور ان کو مارا گیا۔‘
ایک مضبوط خوشحال اور آزاد ویتنام امریکہ کے مفاد میں ہے کیونکہ جنوبی بحیرہ چین کے پانیوں پر دعوے کے معاملے پر ہنوئی اور بیجنگ کے درمیان تعلقات تعطل کا شکار ہیں۔
دونوں ملکوں کے درمیان 1995 سے 451 ملین ڈالر سے بڑھ کر 2020 میں تجارت 90 بلین ڈالر تک پہنچ گئی ہے۔
اب جبکہ افغانستان میں جنگ کا خاتمہ ہو چکا ہے اور طالبان اور علاقائی ممالک میں سفارتی تعلقات کی بحالی سے متعلق بات چیت ہو رہی ہے تو امریکہ اور ویتنام کے درمیان دشمنی سے ترقی کی جانب بڑھتے شراکت داری کے تعلقات مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔

افغانستان میں امریکی جنگ کے اخراجات۔ (عرب نیوز)

طالبان علاقائی ممالک سمیت چین، خلیجی ممالک، ترکی اور حتیٰ کہ انڈیا کے ساتھ سفارتی تعلقات رکھنے کے خواہاں ہیں۔
امریکہ کو فوری سکیورٹی کے لیے یہ یقینی بنانا ہوگا کہ القاعدہ اور نہ ہی داعش عالمی سطح پر دہشت گردانہ حملوں کی منصوبہ بندی کے لیے اڈے قائم کر سکے۔
اس مقصد کے لیے امریکہ کو طاقت کے بغیر سفارتی اور معاشی مراعات سمیت اپنے اختیار میں تمام وسائل کو بروئے کار لانا ہو گا۔
امریکہ اور ویتنام کے تعلقات میں ڈرامائی تبدیلی کا مطلب یہ ہے کہ افغانستان کے معاملے میں امید کی گنجائش ہے لیکن احتیاط اور ہوشیاری کے ساتھ۔
جیمز کارافانو کا کہنا ہے کہ ’افغانستان میں امریکہ کے رہنے کی دو وجوہات تھیں، ایک، ایک مقام سے عالمی سطح پر دہشت گردی کو روکنا اور دوسرا جنوبی ایشیا کو عدم استحکام سے بچانا۔ یہ دونوں جائز امریکی مفادات تھے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’خطے میں اب ہماری کوئی موجودگی نہیں اور نہ ہی دہشت گردی کی صورتحال پر نظر رکھنے کے لیے۔ ہم نے اپنے اتحادیوں کا اعتماد کھو دیا ہے۔‘
مستقبل کے بارے میں انہوں نے کہا کہ ’طالبان دوسری عالمی جنگ کے بعد جرمنی جیسے ارتقا سے نہیں گزر رہے، یہ ایک مضحکہ خیز خیال ہے کہ طالبان ایک حکومت کی طرح معمول پر آ جائیں گے۔ داعش کو استعمال کیا جا سکتا ہے۔ وہ ہم سے زیادہ طالبان کے لیے ایک بڑا خطرہ ہے۔‘

ویتنام اور امریکہ کے درمیان تجارت کا حجم

’کیا طالبان حقانی نیٹ ورک اور القاعدہ کے ساتھ تعلقات توڑ دیں گے؟ وہ نہیں کریں گے۔ ہو سکتا ہے طالبان اگلے نائن الیون کی منصوبہ بندی نہ کریں لیکن القاعدہ اور حقانی کریں گے۔‘
اب دیکھنا یہ ہے کہ طالبان ریاستی امور کو چلانے کے لیے ضروریات کو ترجیح دے سکتے ہیں جس کے لیے انہیں بیرونی مالی مدد اور تکنیکی مہارت کی ضرورت ہوگی۔
حتمی تجزیہ یہ ہے کہ ویتنام اور افغانستان میں امریکہ کی فوجی شکست میں وقت سب سے اہم عنصر تھا لیکن ویتنام کی جنگ کے بعد یہ وقت کا گزرنا ہی تھا کہ جس نے مخالفین کو مشترکہ مفادات اور خطرات کی بنیاد پر دوست بننے میں مدد دی۔
یہ دیکھنا ابھی باقی ہے کہ آیا کسی تیسرے ذلت آمیز انخلا سے بچنے کے لیے امریکی پالیسی سازوں نے دو ممالک سے ذلت آمیز انخلا سے کچھ سیکھا ہے۔
ویتنام میں فوجی شکست کے بعد امریکہ ایک حد تک اپنی سفارتی فتح بچانے میں کامیاب رہا لیکن افغانستان میں بہت کچھ طالبان کی قیادت کی صلاحیت اور ماضی سے ناطہ توڑنے پر ان کی تیاری پر منحصر ہوگا۔

شیئر: