Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

طالبان کے مرکز قندھار میں اسلحے کا کاروبار اچانک کیوں چمک اٹھا؟

طالبان کے قبضے نے افغانستان کو غیر یقینی صورتحال اور معاشی مشکلات سے دوچار  کیا ہو گا لیکن اسلحہ فروش خان محمد اس سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھا رہا ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کی ایک رپورٹ کے مطابق افغانستان کے جنوبی صوبے قندھار کے ضلع پنجوائی میں ایک فارمیسی اور ایک جنرل سٹور کے درمیان واقع خان محمد کی دکان تازہ سامان سے بھری پڑی ہے۔
جب خان محمد نے اپنی دکان کا سامان دکھایا تو وہاں کموفلاج جنگی واسکٹیں اور گولیوں کے پَٹّے دیواروں سے لٹکے ہوئے تھے۔ اس کے سامان میں امریکی ساختہ سمتھ اور ویسن پستول اور گولہ بارود کی بیلٹیں بھی شامل تھیں۔
اس کے علاوہ اور بھی پستول، دستی بم، واکی ٹاکی اور گولیوں سے بھرے جار سامنے والے شیشے کے ڈسپلے پر لگے ہوئے ہیں۔
خان محمد نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ تنازع کے خاتمے کے ساتھ ہتھیاروں کے بہت سے مالکان اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ انہیں اب ہتھیاروں کی ضرورت نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’جن لوگوں کے پاس برسوں سے گھر میں بندوقیں پڑی ہیں وہ اب ہمارے پاس اپنے ہتھیار لاتے ہیں۔‘
خان محمد کے پاس ایک گاہک بھی کھڑا ہے۔ انہوں نے طالبان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’ہم انہیں خریدتے ہیں اور مجاہدین کو فروخت کرتے ہیں۔‘

’طالبان کسی اور کو (ہتھیار) لینے نہیں دیتے‘

خان محمد کے پاس صرف ہتھیار ہی نہیں تھے بلکہ ہتھیاروں کے ضروری پرزے اور لوازمات بھی تھے۔

افغان فوج کے حالیہ خاتمے نے عسکریت پسندوں کے لیے ہتھیار جمع کرنے کا بڑا موقع پیدا کر دیا ہے۔(فوٹو: اے ایف پی)

بیس بال کی سفید ٹوپیاں بھی جن پر مسلمانوں کے عقیدے سے متعلق کلمات چھپے ہوئے تھے، دکان کی چھت سے لٹکی ہوئی تھیں اور طالبان کے جھنڈے بھی فروخت کے لیے موجود تھے۔
خاک سے اٹی ہوئی پنجوائی مارکیٹ کا ایک اور ڈیلر جس کی دکان طالبان کے بڑے جھنڈوں اور ان کے سرکردہ رہنماؤں کی تصاویر سے مزین تھی، اس کے پاس زیادہ بڑی پیشکش تھی۔
اس کے سامان میں اسالٹ رائفلیں یعنی  اے کے 47 کی مختلف قسمیں اور امریکی ساختہ ایم 4 اور ایم 16 سمیت ہلکی مشین گنیں بھی دستیاب ہیں۔
خیال رہے کہ طالبان برسوں سے بلیک مارکیٹ سے اسلحہ اور گولہ بارود خریدتے رہے۔ اقوام متحدہ اور نگرانی کرنے والے مغربی اداروں کے مطابق انہوں نے میدان جنگ سے اسلحہ اور سازوسامان بھی قبضے میں لے لیا اور فوجی چوکیوں کو  بند کر دیا۔
افغان فوج کے حالیہ خاتمے نے عسکریت پسندوں کے لیے ہتھیار جمع کرنے کا بڑا موقع پیدا کر دیا ہے۔
امریکی ساختہ انفنٹری ہتھیاروں کی بڑی تعداد کے علاوہ افغانستان کے ’نئے حکمرانوں‘ کے پاس اب ہموی ، بکتر بند گاڑیاں اور کم از کم ایک بلیک ہاک ہیلی کاپٹر قابل استعمال حالت میں موجود ہے۔
عسکریت پسند ’مال غنیمت سے بھی فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ طالبان افغان اور مغربی فوجی اڈوں سے مختلف اقسام کی اشیاء جمع کر رہے ہیں۔
جولائی میں جب افغانستان سے امریکی قیادت والے فوجیوں کے انخلا میں تیزی آئی تو طالبان نے قندھار کے ضلع پنجوائی پر قبضہ کر لیا تھا۔

اقوام متحدہ اور نگرانی کرنے والے مغربی اداروں کے مطابق انہوں نے میدان جنگ سے اسلحہ اور سازوسامان قبضے میں لے لیا تھا۔(فوٹو: اے ایف پی)

اے ایف پی کے مطابق اس مقامی مارکیٹ میں ضلع کے افغان فوجی اڈے سے بچائے گئے تعمیراتی مواد سے لے کر دھاتی ٹریز تک سب کچھ فروخت کے لیے موجود تھا۔
اس مارکیٹ کے ایک دکاندار مرتضیٰ نے کہا کہ ’ہم نے یہ سب چیزیں طالبان سے افغان آرمی بیس کو فتح کرنے کے بعد خریدی ہیں۔‘
’اب ہم انہیں فروخت کے لیے مارکیٹ میں لائے ہیں۔‘

شیئر: