Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کابل کے بازاروں میں شہری گھریلو سامان فروخت کرنے پر مجبور، ’ہمارے پاس کھانے کو کچھ نہیں‘

اقوام متحدہ کے مطابق غربت کی لکیر کے نیچے رہنے والے افراد کی شرح 72 فیصد سے بڑھ کر اگلے سال کی وسط تک 97 فیصد تک بڑھ سکتی ہے۔ فوٹو: اے ایف پی
کابل کے بازار پرانی اشیا کے سامان سے بھرے ہیں۔ یہ سامان یا تو ملک چھوڑنے والوں یا ضرورت مند افغان شہریوں نے فروخت کیا ہے۔ 
15 اگست کو طالبان کے کابل پر قبضے کے بعد سے افغانوں کو معاشی مشکلات کا سامنا ہے۔ فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق بازاروں میں کچن کی اشیا سے لے کر نوے کی دہائی کے ٹی وی سیٹس، پرانی سلائی مشینیں، بستر اور قالین موجود ہیں۔

شہریوں کے مطابق پہلے کی طرح اب معمول کے مطابق کام پر نہیں جا رہے ہیں اور وہ ہر ہفتے اپنے بینک اکاؤنٹ سے صرف 200 ڈالر تک کی رقم نکلوا سکتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ ملک میں نقدی کی قلت ہے۔

محمد احسان نامی شخص جو کابل کے ایک پہاڑی علاقے میں رہتے ہیں، کا کہنا ہے کہ ’ہمارے پاس کھانے کو کچھ نہیں۔ ہم غریب ہیں اور یہ سامان بیچنے پر مجبور ہیں۔‘ محمد احسان کا کہنا تھا کہ وہ مزدور کے طور پر کام کرتے تھے تاہم اب تعمیراتی پراجیکٹس منسوخ کردیے گئے ہیں یا روک دیے گئے ہیں۔

انہوں نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’پہلے امیر لوگ کابل میں تھے، اب سب چلے گئے ہیں۔‘ ان کا شمار ان افغانوں میں ہوتا ہے جو اپنا سامان فروخت کرنے اس بازار آتے ہیں۔
ایک دکاندار نے اپنی حفاظت کے خدشے کے پیشن نظر نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ انہوں نے حال ہی میں گھریلو سامان کی خرید و فروخت شروع کی ہے۔ ان کے مطابق وہ 13 سال تک فوج میں ٹرینر تھے لیکن حالات بدلنے پر اب یہ کام کر رہے ہیں۔

انہوں نے افغانستان کے حالات کو بدلتے دیکھا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ انہیں طالبان کے امن اور خوشحالی کے دعوؤں پر مکمل اعتبار نہیں۔ ان کے مطابق کہ اس بار بھی کھانے کی بنیادی اشیا کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں جیسے طالبان کے 1996 سے 2001 کے درمیان رہنے والے اقتدار کے دوران ہوا تھا۔
کابل کے اس بازار میں لوگ اپنا سامان فروخت کرنے سے پہلے ان کی مرمت بھی کرتے ہیں۔ ایک دکاندار کا کہنا ہے کہ وہ کبھی اتنے مصروف نہیں تھے۔ 
 

طالبان کے قتدار میں آنے سے پہلے سے ہی افغانستان کو پہلے ہی خشک سالی، کھانے کی قلت اور کورونا وائرس کی وجہ سے صحت کے نظام پر دباؤ کا سامنا ہے۔
اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام نے گذشتہ ہفتے خبردارکیا تھا کہ غربت کی لکیر کے نیچے رہنے والے افراد کی شرح 72 فیصد سے بڑھ کر اگلے سال کی وسط تک 97 فیصد تک بڑھ سکتی ہے۔

شیئر: