Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کیا جام کمال کے خلاف عدم اعتماد کا خطرہ ٹل گیا؟

بلوچستان عوامی پارٹی کے ذرائع کے مطابق جام مخالف ارکان کی اکثریت کو حزب اختلاف کی عدم اعتماد کی تحریک کا ساتھ نہ دینے پر راضی کرلیا گیا ہے۔ (فوٹو: ٹوئٹر)
وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کے لیے بلوچستان اسمبلی کا اجلاس طلب کرنے سے متعلق صوبائی اسمبلی سیکریٹریٹ کی جانب سے بھیجی گئی سمری پر گورنر سیکریٹریٹ نے اعتراض اٹھا دیے جس کی وجہ سے 21 ستمبر کو صوبائی اسمبلی کے اجلاس کا انعقاد خطرے میں پڑ گیا۔
عدم اعتماد کی تحریک  اسمبلی میں پیش ہونے میں تاخیر کے ساتھ  حکومتی صفوں میں جام کمال کی مخالفت کرنے والے دھڑے کی اکثریت بھی پیچھے ہٹ گئی۔
حکمران جماعت بلوچستان عوامی پارٹی کے ذرائع کے مطابق جام مخالف ارکان کی اکثریت کو حزب اختلاف کی عدم اعتماد کی تحریک کا ساتھ نہ دینے پر راضی کرلیا گیا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ  وزیراعلیٰ کو اس سلسلے میں ناراض ارکان کے تحفظات دور کرنے کے لیے وقت دیا گیا ہے۔  تحفظات دور نہ ہوئے تو پارٹی وزیراعلیٰ کے مستقبل کا فیصلہ اکثریت رائے سے کرے گی۔ بی اے پی کے ناراض ارکان کی اکثریت کو منانے کے بعد حزب اختلاف کی تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے امکانات بھی کم ہوگئے۔
جمعیت علماء اسلام (ف)، بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل )اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی پر مشتمل بلوچستان اسمبلی کے متحدہ حزب اختلاف نے 16 ارکان کے دستخط سے 14 ستمبر کو صوبائی اسمبلی سیکریٹریٹ میں وزیراعلیٰ جام کمال خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کرائی تھی جس پر قانونی طور پر سات دنوں کے اندر اسمبلی کا اجلاس بلانا ضروری تھا۔
تاہم اسمبلی سیکریٹریٹ کی جانب سے اجلاس طلب کرنے سے متعلق بھیجی گئی سمری پر گورنر بلوچستان کے دفتر نے اعتراضات اٹھا دیے۔  گورنر سیکریٹریٹ کے مطابق ’سمری  میں کئی تکنیکی خامیاں تھیں جنہیں دور کرکے دوبارہ سمری بھیجنے کا کہا گیا ہے  تاہم اب تک سیکریٹریٹ کو دوبارہ سمری نہیں ملی۔‘
آئین پاکستان کی شق 136 کے تحت تحریک عدم اعتماد کے ذریعے کسی بھی صوبے کے وزیراعلیٰ کو ہٹانے کے لیے اسمبلی ارکان کی سادہ اکثریت ضروری ہے۔ 65 ارکان پر مشتمل بلوچستان اسمبلی میں حزب اختلاف کو سادہ اکثریت کے لیے 33 ووٹ درکار ہیں تاہم صوبائی اسمبلی میں حزب اختلاف  کے کل ارکان کی تعداد 23 ہے  جن میں جے یو آئی ف کے 11، بی این پی کے 10 اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کا ایک رکن اور آزاد رکن نواب اسلم رئیسانی شامل ہیں۔

تجزیہ کار رضا الرحمان کا کہنا ہے کہ نصیرآباد ڈویژن اور مکران ڈویژن سے تعلق رکھنے والے ارکان اسمبلی کو حلقوں میں مداخلت اور فنڈز نہ ملنے پر تحفظات ہیں (فوٹو: ٹوئٹر)

جبکہ 40 رکنی مخلوط حکومتی اتحاد میں بلوچستان عوامی پارٹی 24 ارکان، تحریک انصاف سات، عوامی نیشنل پارٹی چار، بلوچستان نیشنل پارٹی(عوامی ) اور ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی دو دو، جمہوری وطن پارٹی ایک رکن کے ساتھ شامل ہیں۔
ان کے علاوہ ن لیگ کے منحرف رکن نواب ثناء اللہ زہری (جو اب پیپلز پارٹی میں شامل ہوچکے ہیں) اور بی این پی عوامی سے الگ ہوکر نئی جماعت بنانے والے سید احسان شاہ بھی ماضی میں کئی بار حکومتی اتحاد کا ساتھ دے چکے ہیں۔
عدم اعتماد کی کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ حزب اختلاف حکومتی اتحاد سے 10 ارکان توڑ کر ساتھ ملائے۔ سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق وزیراعلیٰ جام کمال کو اصل خطرہ حزب اختلاف نہیں بلکہ اپنی ہی جماعت  بلوچستان عوامی پارٹی (جس کے وہ سربراہ بھی ہیں) سے ہے جس کے باغی ارکان کی قیادت سپیکر بلوچستان اسمبلی عبدالقدوس بزنجو اور سابق صوبائی وزیر صالح محمد بھوتانی کررہے ہیں ۔
کوئٹہ پریس کلب کے سابق صدر تجزیہ کار رضا الرحمان کا کہنا ہے کہ نصیرآباد ڈویژن، مکران ڈویژن سے تعلق رکھنے والے اور کچھ خواتین ارکان اسمبلی کو حلقوں میں مداخلت، فنڈز نہ ملنے ، وزیراعلیٰ کی جانب سے نظر انداز کرنے اور حلقہ انتخاب میں افسران کی تعیناتی پر تحفظات ہیں اس لیے وہ بھی وزیراعلیٰ کو ہٹانے کی مہم میں حزب اختلاف کا ساتھ دینے کے لیے تیار تھے۔
تاہم بی اے پی سے تعلق رکھنے والے چیئرمین  سینیٹ  صادق سنجرانی سمیت اہم شخصیات نے  ناراض دھڑے سے مذاکرات کرکے وزیراعلیٰ کو عارضی طور پر مہلت فراہم کردی ہے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ اس مہلت کے دوران وزیراعلیٰ کس طرح ناراض ارکان کو مناتے ہیں۔

عدم اعتماد کی کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ حزب اختلاف حکومتی اتحاد سے 10 ارکان توڑ کر ساتھ ملائے (فوٹو: ٹوئٹر)

ان کا کہنا ہے کہ سپیکر عبدالقدوس بزنجو کافی عرصہ سے کھل کر جام کمال کی مخالفت کرتے آرہے ہیں جبکہ کچھ عرصہ قبل وزیراعلیٰ نے  اختلافات کی بنیاد پر صالح بھوتانی سے محکمہ بلدیات کی وزارت واپس لے لی تھی جس پر انہوں نے احتجاجاً صوبائی وزیر کی حیثیت سے استعفا دے دیا تھا۔ اس طرح مشیر ماہی گیری اکبر آسکانی اور بی این پی عوامی کے صوبائی وزیر اسد بلوچ  بھی وزیراعلیٰ سے ناراض ہیں ۔اسد بلوچ کی اہلیہ بھی اسمبلی کی رکن ہیں۔ اس طرح ناراض ارکان کی تعداد بڑھتی گئی۔
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے مذاکرات میں شریک بلوچستان عوامی پارٹی کے ایک رہنما نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ناراض ارکان کو اس بات پر قائل کرلیا گیا ہے کہ وہ حزب اختلاف کی تحریک عدم اعتماد کا ساتھ نہیں دیں گےاور وزیراعلیٰ کو وقت دیا جائے گا تاکہ وہ پارٹی ارکان کے تحفظات  دور کرسکیں ۔ اگر وزیراعلیٰ ایسا نہ کرسکیں تو پھر پارٹی اندرونی طور پر اکثریت رائے سے جام کمال کو پارلیمانی لیڈر کے عہدے سے ہٹانے سمیت مختلف آپشنز پر غور کرے گی۔
انہوں نے مزید  بتایا کہ عبدالقدوس بزنجو اور صالح بھوتانی سمیت کچھ ارکان اب بھی پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں مگر ان کی تعداد اکثریت سے اقلیت میں آگئی ہے اور اگر وہ حزب اختلاف کا ساتھ دیتے بھی ہیں تو 33 ارکان کا مطلوبہ ہدف پوراُ نہیں ہوگا۔  
سینئر صحافی وتجزیہ کار عرفان سعید کے مطابق چونکہ عدم اعتماد کی تحریک پی ڈی ایم میں شامل حزب اختلاف کی جماعتوں نے جمع کرائی ہے اس لیے تحریک انصاف کی مرکزی حکومت، بلوچستان عوامی پارٹی کی سینیئر قیادت اور ان دونوں جماعتوں کے اندر اثر و رسوخ رکھنے والے حلقے بلوچستان میں کسی سیاسی تبدیلی کا کریڈٹ پی ڈی ایم کو نہیں دینا چاہتے۔

گورنر سیکٹریٹ کی جانب سے اعتراض کے بعد 21 ستمبر کو صوبائی اسمبلی کے اجلاس کا انعقاد خطرے میں پڑ گیا۔ (فوٹو: ٹوئٹر)

اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے عرفان سعید نے بتایا کہ ناراض ارکان پر واضح کردیا گیا کہ صوبے میں سیاسی تبدیلی کے اثرات پورے ملک پر پڑسکتے ہیں اس لیے اگر کوئی تبدیلی لانی بھی ہے تو حزب اختلاف کا کندھا استعمال کرنے کے بجائے بعد میں اندرونی طور پر لائی جائے ۔ اس سلسلے میں ناراض ارکان کو وزیراعلیٰ کو دو ہفتوں کی مہلت دینے پر رضا مند کرلیا گیا ہے۔
تاہم بلوچستان عوامی پارٹی کے سینیٹر سرفراز احمد بگٹی نے اتوار کو کوئٹہ میں میڈیا کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے وزیراعلیٰ کو 15 دنوں کی مہلت دینے کی خبریں کو بے بنیاد قرار دیا ہے۔ان کے بقول حزب اختلاف کی تحریک عدم اعتماد تو یقینی طور پر ناکام ہوجائے گی ۔
عرفان سعید کے مطابق یہ بھی فیصلہ کرلیا گیا ہے کہ حزب اختلاف کی تحریک عدم اعتماد کو تکنیکی طریقے سے التوا میں رکھا جائے گا۔
بلوچستان کے سینئر قانون دان ساجد ترین ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ اگر  عدم اعتماد کی تحریک اسمبلی میں پیش ہونے کے بعد ناکام ہوگئی تو وزیراعلیٰ کے خلاف چھ ماہ تک دوبارہ کوئی تحریک نہیں لائی جاسکے گی۔

ساجد ترین ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ اگر  عدم اعتماد کی تحریک ناکام ہوگئی تو وزیراعلیٰ کے خلاف چھ ماہ تک دوبارہ کوئی تحریک نہیں لائی جاسکے گی۔ (فوٹو: سکرین گریب)

عرفان سعید کے مطابق اس لیے  بی اے پی کے ناراض اراکین جن کے حزب اختلاف سے بھی رابطے ہیں وہ اب حزب اختلاف کی قیادت کو اس بات پر راضی کررہے ہیں کہ عدم اعتماد کی تحریک کو اسمبلی میں فی الحال اسمبلی میں پیش نہ کیا جائے۔
سینئر تجزیہ کار جلال نورزئی کا کہنا ہے کہ وزیراعلیٰ کو ہٹانے کے لیے بلوچستان عوامی پارٹی کے جام مخالف ارکان اور حزب اختلاف کا گٹھ جوڑ ناکام ہوگیا ہے ۔ان کے خیال میں وزیراعلیٰ کو ملنے والی مہلت عارضی نہیں اور وہ دوبارہ پہلی جیسی پوزیشن میں ہوں گے۔ 
بلوچستان اسمبلی میں قائد حزب اختلاف ملک سکندر ایڈووکیٹ سے جب اردو نیوز نے سوال کیا کہ کیا حکومت کے ناراض ارکان پیچھے ہٹ گئے ہیں تو ان کا جواب تھا کہ ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔ انہوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ جن حکومتی ارکان نے وعدہ کیا تھا وہ اب بھی  ہمارے ساتھ ہیں۔

شیئر: