Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع

سنہ 2018 کے بعد بلوچستان اسمبلی میں یہ دوسرا موقع ہے کہ قائد ایوان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک جمع ہوئی ہے (فوٹو: اردو نیوز)
بلوچستان اسمبلی میں متحدہ حزب اختلاف نے وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کرا دی ہے۔ حزب اختلاف کا دعویٰ ہے کہ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے لیے ارکان کے نمبرز پورے ہیں۔ 
منگل کو اسمبلی اجلاس کے بعد بلوچستان نیشنل پارٹی کے ملک نصیر شاہوانی، جمعیت علمائے اسلام کے یونس عزیز زہری، پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے نصراللہ زیرے اور دیگر ارکان نے سیکریٹری صوبائی اسمبلی کے پاس عدم اعتماد کی تحریک جمع کرائی۔ 
تحریک عدم اعتماد پر متحدہ اپوزیشن کے 16 اراکین کے دستخط موجود ہیں۔ عدم اعتماد کی تحریک میں چار وجوہات بیان کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ گذشتہ تین برسوں میں وزیراعلیٰ جام کمال کی خراب حکمرانی کے باعث بلوچستان میں شدید مایوسی، بدامنی، بے روزگاری اور اداروں کی کارکردگی شدید متاثر ہوئی ہے۔
’آئین کی شق 37 اور 38 کی خلاف ورزی کرتے ہوئے غیر منصفانہ، عدم مساوات اور تعصبانہ ترقیاتی بجٹ پیش کئے جس سے دانستہ طور پر علاقوں میں پسماندگی، محرومی اور بدامنی میں انتہا درجے کا اضافہ ہوا۔‘ 
عدم اعتماد کی تحریک کے متن میں مزید کہا گیا ہے کہ بلوچستان میں قتل، اغوا، چوری، ڈکیتی اور دہشت گردی کے باعث عوام سراپا احتجاج ہیں اور ان میں شدید عدم تحفظ کا احساس پایا جاتا ہے۔
’بلوچستان کے حقوق کے حوالے سے جام کمال خان نے وفاقی حکومت کے ساتھ آئینی اور بنیادی حقوق کے مسائل پر انتہائی غیر سنجیدگی کا ثبوت دیا جس سے صوبے میں بجلی، گیس ، پانی اور شدید معاشی بحران پیدا ہوا۔‘
65 رکنی بلوچستان اسمبلی میں متحدہ اپوزیشن کے ارکان کی تعداد 23 ہے جن میں جے یو آئی ف کے 11، بی این پی کے 10، پشتونخوامیپ کا ایک رکن اور ایک آزاد رکن نواب محمد اسلم رئیسانی شامل ہیں۔

تحریک عدم اعتماد کے متن میں کہا گیا ہے کہ ’جام کمال کے دور میں بلوچستان میں شدید بدامنی پیدا ہوئی ہے‘ (فائل فوٹو: جام کمال ٹوئٹر)

حکومتی جماعت بی این پی عوامی سے الگ ہونے والے سید احسان شاہ بھی اپوزیشن کی حمایت کرسکتے ہیں۔ 
حکمران جماعت بلوچستان عوام پارٹی (بی اے پی) سے تعلق رکھنے والے سپیکر عبدالقدوس بزنجو کے بارے میں بھی خیال کیا جاتا ہے کہ وہ عدم اعتماد کی تحریک کی نہ صرف خود حمایت کررہے ہیں بلکہ حکومتی اتحاد کے کئی ارکان کو بھی قائل کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ 
سنہ 2018 کے بعد بلوچستان اسمبلی میں یہ دوسرا موقع ہے کہ قائد ایوان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک جمع ہوئی ہے۔ جنوری 2018 میں نواب ثناء اللہ زہری نے اسمبلی اجلاس میں تحریک پیش ہونے سے پہلے ہی وزارت اعلیٰ سے استعفیٰ دے دیا تھا جس کے بعد عبدالقدوس بزنجو وزیراعلیٰ بنے تھے۔   

65 رکنی بلوچستان اسمبلی میں متحدہ اپوزیشن کے ارکان کی تعداد 23 ہے (فائل فوٹو: آن لائن)

عدم اعتماد کی تحریک جمع کرانے کے بعد میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے اپوزیشن ارکان ثناء اللہ بلوچ، زاہد علی ریکی اور نصراللہ زیرے کا دعویٰ تھا کہ ہمیں عدم اعتماد کی تحریک کی کامیابی کےلئے مطلوبہ 33 ارکان کی حمایت حاصل ہے۔
دس حکومتی ارکان بھی  اپوزیشن کا ساتھ دیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ اخلاقی آور آئینی طور پر جام کمال جواز حکمرانی کھوچکے ہیں۔ انہوں نے تین برسوں میں بلوچستان کے لیے کچھ نہیں کیا۔ 
اپوزیشن ارکان کا کہنا تھا کہ آج جو حالات ہیں ہر شخص اس حکومت کا خاتمہ چاہتا ہے۔ صوبے میں بدامنی ،کرپشن اور لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ سات دنوں کے اندر اسمبلی کا اجلاس بلاکر تحریک  عدم اعتماد پر رائے شماری کرائی جائے گی ۔ ہمارے نمبرز پورے ہیں۔

شیئر: