Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سورج، ریت اور ذہنی تناؤ: البانیہ پہنچنے والے افغان پناہ گزینوں کی زندگی کیسی ہے؟

کھجور کے درختوں، ریتیلے ساحل اور صاف پانی والے اس ریزارٹ میں موجود مہمانوں کو اب واپس نہیں دھکیلا جائے گا- یہ وہ افغان ہیں جو اپنے ملک سے فرار ہو کر البانیہ پہنچے ہیں۔ یہ پناہ گزین صدمے کی کیفیت میں ہیں اور اپنے مستقبل کے بارے میں غیر یقینی کا شکار ہیں۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق خواتین کے حقوق کی کارکن 25 سالہ لطیفہ فروتن جو طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد وہاں سے فرار ہوئیں، انہوں نے شینگین کے شمالی ریزارٹ سے اے ایف پی کو بتایا کہ ’میں جسمانی طور پر یہاں ہوں لیکن میرا دل افغانستان میں میری والدہ اور میرے بھائی کے سامنے ہے۔‘
البانیہ نے عارضی طور پر چار ہزار افغانوں کو پناہ دینے کا وعدہ کیا تھا اور اب تک وہاں لگ بھگ 700 کے قریب افغان شہری رہائش پذیر ہیں جن میں سے بیش تر خواتین اور بچے ہیں۔
وہ تالاب کے ارد گرد نصب کرسیوں پر بے چین بیٹھے ہیں اور ان کے ہاتھوں میں فون ہیں۔ وہ افغانستان میں رہ جانے والے اپنے پیاروں سے رابطہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
البانیہ کی وزیراعظم ایدی راما نے کہا کہ ’یہ لوگ دہشت گردی سے بھاگ کر یہاں پہنچے ہیں۔ یہ صدمے کا شکار ہیں اور انہیں کیمپوں میں ڈال دینا غیر انسانی ہو گا۔‘
کچھ مغربی یورپی ممالک کے برعکس البانیہ کی حکومت کا افغان شہریوں کی مدد کرنے کا فیصلہ وہاں کے لوگوں میں مقبول ہوا ہے اور کسی بھی سیاسی جماعت نے وہاں کی حکومت کے اس اقدام سے اختلاف نہیں کیا ہے۔

’زندگی جینے کی امنگ‘


بچوں کے بال گیم کھیلنے یا تالاب میں کودنے کی آوازوں سے بڑوں کی پریشانی عجیب و غریب ہوتی ہے۔(فوٹو: اے ایف پی)

یہ بلقان کا چھوٹا سا ملک (البانیہ) ہے جو یورپ کے غریب ترین ممالک میں سے ایک ہے لیکن یہ اپنے’لینڈ آف ویلکم‘ ہونے پر فخر کرتا ہے۔
سنہ 1990 کی دہائی کے آخر میں اسی ملک نے کوسوو پناہ گزینوں کو سربیا کے صدر سلوبوڈان میلوسیوک کی حکومت سے پناہ دی تھی اور دوسری جنگ عظیم کے بعد البانیہ کی یہودی آبادی تنازع سے پہلے کی نسبت زیادہ ہو گئی تھی۔
لیکن یہی البانیہ خود بھی ہجرت کی سرزمین ہے۔ 1990 کی دہائی سے اب تک اس کے 10 لاکھ سے زائد شہری ملک چھوڑ چکے ہیں، ان میں سے بیش تر مغربی ممالک میں بہتر زندگی کے متلاشی ہیں۔
شینگین میں ہوٹل کملپلیکس کو فراہم کی گئی ایمبولینس کے ڈرائیور وکٹر نیریہ کہتے ہیں کہ ’یہ افغان ہمارے لوگوں کی طرح ہیں۔ یہ میرے خاندان کی طرح ہیں۔‘
’میں ان کے درد کو سمجھتا ہوں، میں ان کے بچوں میں زندگی کی امنگ بانٹتا ہوں اور اس سے مجھے اپنے دو بیٹوں کی عدم موجودگی کو بھلانے میں مدد ملتی ہے جو مجھ سے بہت دور ہیں۔‘
لیکن البانیہ کی جانب سے افغان تارکین وطن کا پرتپاک استقبال اور پرتعیش رہائش ان کی مایوسی کو دور نہیں کر سکتی۔
لطیفہ فروٹن کہتی ہیں کہ ’ہم یہاں خوش قسمت ہیں، ہمارے پاس وہ تمام سہولیات ہیں جن کی ہمیں ضرورت ہے، لیکن ہم اپنے خاندانوں کے بارے میں فکر مند ہیں۔‘
الیاس نواندیش کی طرح وہاں موجود کچھ صحافی وطن سے فاصلے سے بھی اپنا کام جاری رکھنے کا عزم رکھتے ہیں۔
’دو دن پہلے جب میں صبح سویا، مجھے اپنے ساتھیوں اور باس کی طرف سے پیغام ملا کہ میرے دو ساتھیوں کو طالبان نے گرفتار کر لیا ہے۔‘
نواندیش جو اخباری خبروں کے لیے آن لائن کوریج  کا اہتمام کرتے ہیں، وہ افغانستان میں طالبان کے کنٹرول کے بعد بچ جانے والی گنی چنی تنقیدی آوازوں میں سے ایک ہیں۔
مجھے افغانستان کے مستقبل کی امید نہیں ہے کیونکہ ہم طالبان کو جانتے ہیں اور مجھے یقین ہے کہ آنے والے دن اور بھی مشکل ہوں گے۔‘

’ہر کال کے بعد میں رو پڑتی ہوں‘


البانیہ کی جانب سے افغان تارکین وطن کا پرتپاک استقبال اور پرتعیش رہائش ان کی مایوسی کو دور نہیں کر سکتی۔(فوٹو: اے ایف پی)

جب آبائی وطن کی معلومات ہوٹل کے باہر جمع گروہوں تک پہنچتی ہیں تو یہ وہاں جنگل کی آگ کی طرح پھیل جاتی ہیں۔
وہاں لڑکیوں کو ہائی سکولوں میں داخلے کی اجازت نہ دینے کی خبر نے پریشان کن ہلچل مچا دی تھی۔
36 سالہ سائنس دان لینا مومدی اپنے موبائل فون پر یونیورسٹی کے ایک کلاس روم کی تصویر دکھاتی ہیں جہاں طلبہ کو ایک پردے کے ذریعے الگ کیا گیا ہے- ایک طرف لڑکے  اور دوسری جانب لڑکیوں کو بیٹھے دیکھا جا سکتا ہے۔
مومدی کا کہنا ہے کہ ’میری بہنیں ہیں جن کے پاس نوکریاں تھیں اور اب وہ انہیں کھو چکی ہیں اور اپنے کمروں تک محدود ہو گئی ہیں۔‘
وہ ہر کال پر صرف اس بات کو یقینی بنانے کے لیے ان سے اپنے چہرے دکھانے کے لیے کہتی ہے کہ کہیں ان کے ساتھ کچھ ہوا تو نہیں۔
 ’بےچینی بہت زیادہ ہے، ہر کال کے بعد میں روتی ہوں۔‘

’یہاں ہم نہیں جانتے کہ ہمارا مستقبل کیا ہو گا۔‘


البانیہ ان کے سفر کی آخری منزل نہیں ہے۔ان میں سے بیش تر کو امریکہ جانے کی امید ہے اور وہ اپنے ویزوں پر کارروائی کے منتظر ہیں۔(فوٹو: اے ایف پی)

افغان تارکین وطن کے لیے زندگی ناگوار ہے۔ انہیں گھر سے ہزاروں میل دور امریکی این جی اوز اور البانیہ کی حکومت کے خرچ پر ایک ہوٹل میں رہنا پڑ رہا ہے۔
بچوں کے بال گیم کھیلنے یا تالاب میں کودنے کی آوازوں سے بڑوں کی پریشانی عجیب و غریب ہوتی ہے یا پھر جب نوعمر ’میرا وطن‘ نغمہ گاتے ہیں جو 1990 کی دہائی میں افغانستان چھوڑنے کے بارے میں ہے۔ یہ نغمہ افغانستان سے ہونے والی اس نئی ہجرت کا ’غیر سرکاری ترانہ‘ سا بن گیا ہے۔
البانیہ ان کے سفر کی آخری منزل نہیں ہے۔ان میں سے بیش تر کو امریکہ جانے کی امید ہے اور وہ اپنے ویزوں پر کارروائی کے منتظر ہیں۔
لیکن کسی چیز کی کوئی بھی ضمانت نہیں ہے، جیسا کہ 29 سالہ طالبہ پروین مسددی کہتی ہیں کہ صرف چند ہفتے قبل ان کے پاس افغانستان میں ملازمتیں اور مستقبل(کے اہداف) تھے جنہیں چھوڑنے کا ان کا کوئی منصوبہ نہیں تھا۔
وہ کہتی ہیں ’یہاں ہم نہیں جانتے کہ ہمارا مستقبل کیا ہو گا۔‘

شیئر: