Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’افغانستان میں آرٹ ختم ہو رہا ہے‘ آرٹسٹوں کا طالبان کے خلاف مزاحمت کا عزم

طالبان کے کابل پر قبضے کے دو دن بعد ایک نوجوان خاتون آرٹسٹ نے اپنی بنائی ہوئی سیرامک کی تمام پلیٹیں اکٹھی کیں اور زمین پر پٹخ کے چکنا چور کر ڈالیں۔
26 سالہ آرٹسٹ سارہ نے ان پلیٹوں پر ان بااثر افغان خواتین کی تصاویر پینٹ کی ہوئی تھیں جنہوں نے ہمیشہ انسانی حقوق کی بات کی تھی۔ 
کابل کی رہائشی سارہ نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ ان کا تمام آرٹ خواتین کے خلاف تشدد کے مسائل کو اجاگر کرتا ہے۔
’آرٹ کے ذریعے میں ان تمام خیالات کا اظہار کر سکتی ہوں جو میں الفاظ میں نہیں کہہ سکتی۔‘
طالبان کی یقین دہانیوں کے باوجود کہ ان کی نئی حکومت پہلے سے مختلف ہوگی، اکثر آرٹسٹ خوف کے باعث اپنے فن پارے تباہ کرنے پر مجبور ہو گئے تھے جبکہ موسیقاروں نے اپنے موسیقی کے آلات توڑ دیے۔
بہت سے آرٹسٹوں کی طرح سارہ بھی خوفزدہ ہیں۔ 
’آرٹ میری زندگی ہے۔ میرا تو مستقبل ہی نہیں رہا۔‘
طالبان کے گزشتہ دور حکومت کے مقابلے میں کابل اب بہت زیادہ تبدیل ہو گیا ہے۔ سارہ کا تعلق بھی اس نوجوان نسل سے ہے جو سوشل میڈیا کے دور میں پلے بڑھے، اس دوران کابل میں بھی آرٹ اور ثقافت کو فروغ کا موقع ملا۔
سارہ کا ارادہ ہے کہ دیگر گریفیٹی پینٹرز کے ساتھ مل کر آرٹ کے ذریعے طالبان کے خلاف احتجاج کریں گی۔
’میں رات کے وقت باہر نکلنا چاہتی ہوں اور طالبان مخالف آرٹ (دیواروں پر) پینٹ کرنا چاہتی ہوں۔‘

کابل کی دیواروں پر خواتین کے حقوق سے متعلق میولرز پینٹ کیے گئے تھے۔ فوٹو اے ایف پی

ایک اور نوجوان آرٹسٹ مریم نے اے ایف پی کو بتایا کہ وہ انسٹاگرام پر طالبان مخالف آرٹ پوسٹ کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں۔
مریم کا کہنا ہے کہ افغانستان میں آرٹ ختم ہو رہا ہے۔ ’میں طالبان کے ساتھ ہتھیاروں کے بجائے اپنے کام کے ذریعے لڑوں گی۔‘
افغانستان کے نامور شاعر رامن مظہر نے اپنے بچپن میں طالبان کا پہلا دور دیکھا تھا۔ ان کی شاعری کو گائیکی کے ذریعے بھی پیش گیا ہے جنہیں ہزاروں کی تعداد میں صارفین یوٹیوب پر دیکھتے ہیں۔ لیکن اب جب رامن مظہر نے انہی گانوں کی ویڈیوز یوٹیوب پر تلاش کرنے کی کوشش کی تو معلوم ہوا کہ وہ ہٹا دی گئی ہیں۔
’لوگ اپنا کام تباہ کر رہے ہیں اور سوشل میڈیا پر پوسٹس بھی ڈیلیٹ کر رہے ہیں۔ یہ آرٹسٹوں کے لیے خودکشی کے برابر ہے۔‘ 
رامن مظہر کا کہنا ہے کہ ’اپنی زندگی بچانے کے لیے اکثر نے سیلف سینسر شپ کا راستہ اپنایا ہے۔ اس سے افغانستان میں آرٹ کا مستقبل تاریک اور غیر یقینی ہوتا جا رہا ہے۔ ہمیں نہیں معلوم کہ ہم کس سمت کی جانب بڑھ رہے ہیں۔‘
گزشتہ ماہ افغان اداکارہ یاسمن یرمل اپنی فیلمی کے ہمراہ فرانس منتقل ہونے پر مجبور ہو گئی تھیں۔ 1997 میں طالبان نے ان کے گھر کی تلاشی لی تھی اور ان کے معذور بچے کو مارا بھی تھا۔
’میں دوبارہ اس تجربے سے نہیں گزرنا چاہتی تھی۔‘
یاسمن یرمل کا کہنا تھا کہ ’آرٹ لوگوں کے ذہنوں کو وسیع کرتا ہے، اسی  لیے آرٹسٹوں سے طالبان ڈرتے ہیں۔‘

طالبان کے خوف سے اکثر موسیقاروں کے اپنے آلات توڑ دیے تھے۔ فوٹو اے ایف پی

افغانستان میں رہ جانے والے باقی آرٹسٹ اپنے گھروں میں قید ہو کر رہ گئے ہیں۔ باہر نکلتے ہوئے وہ خوف محسوس کرتے ہیں، جبکہ روزی کمانا بھی ان کے لیے مشکل ہو گیا ہے۔
آرٹ لارڈ کے شریک بانی فرشاد اپنی ٹیم کے ہمراہ طالبان کے قبضے سے پہلے کابل کی دیواروں پر خواتین کے حقوق اور امن سے متعلق میورلز پینٹ کیا کرتے تھے۔
انہوں نے اپنی اصلی شناخت پوشیدہ رکھتے ہوئے کہا کہ طالبان کے گزشتہ دور کے مقابلے میں لوگوں کو انٹرنیٹ کے ذریعے آرٹ، میوزک اور فلموں تک رسائی حاصل ہے، طالبان کے لیے آرٹ پر پابندیاں لگانا مشکل ہوگا۔
آرٹ لارڈ کے تحت بنائے گئے اکثر میورلز کو مٹا کر طالبان نے اب اپنے پیغامات درج کر لیے ہیں۔

شیئر: