Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پنڈورا پیپرز میں نام: ایف بی آر نے تحقیقات کا آغاز کر دیا

ایف بی آر کےاعلیٰ عہدیدرار کے مطابق وفاقی حکومت نے ابتدائی رپورٹ کے لیے محکمے کو پندرہ دن کا وقت دیا ہے۔ (فوٹو: ایف بی آر ٹوئٹر)
پنڈورا لیکس میں پاکستانی سیاستدانوں، کاروباری افراد اور سابق سرکاری افسران کے نام آنے کے بعد ایف بی آر نے ایسے تمام افراد کے خلاف تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے جن کے نام سامنے آئے ہیں۔ 
ایف بی آر کے ایک اعلیٰ افسر نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اردو نیوز کو بتایا کہ پنڈورا لیکس آنے کے فوری بعد سے وفاقی حکومت نے ایف بی آر کو کھاتوں کی چھان بین کی ہدایات کر دی تھیں۔
’حکومت نے بڑے پیمانے پر تحقیقات کے لیے ایف بی آر کو لکھ دیا تھا۔ اس وقت ایک درجن بہترین افسران کی ٹیم بنا دی گئی ہے جو پنڈورا لیکس میں آنے والے سات ناموں کے تمام کھاتوں کی پڑتال کرے گی۔‘
انہوں نے بتایا کہ ایف بی آر کی پنڈورا لیکس پر بنائی گئی ٹیم نہ صرف تمام افراد کے کھاتوں کی جانچ کرے گی بلکہ آف شور کمپنیوں سے متعلق بھی ہر طرح کا مواد اکھٹا کیا جائے گا۔
پنڈورا لیکس میں جو حقائق آئے ہیں ان سے اب تک یہ اندازہ لگانا مشکل ہے کہ جن پاکستانیوں کے نام آئے ہیں انہوں نے کس حد ملکی قوانین کی خلاف ورزی کی ہے۔ اس حوالے سے بھی ٹیم کو یہ ٹاسک دیا گیا ہے تاکہ اگر ان معلومات کی بنیاد پر اگر مقدمات بنائے جاتے ہیں تو قانون کی مدد کس حد تک حاصل کی جاسکتی ہے۔‘ 
ایف بی آر کےاعلیٰ عہدیدرار کے مطابق وفاقی حکومت نے ابتدائی رپورٹ کے لیے محکمے کو پندرہ دن کا وقت دیا ہے۔
’ابتدائی رپورٹ میں یہ بات واضح ہو جائے گی کہ یہ معاملہ کون سی سمت اختیار کرے گا۔ کیونکہ اگر ملکی قوانین کی خلاف ورزی سامنے آئی تو فوجداری مقدمات بھی درج ہو سکتے ہیں۔ اس میں سب سے اہم سوال منی لانڈرنگ سے متعلق ہو گا۔ کہ آف شور کمپنیوں کے لیے رقوم بیرون ملک کیسے منتقل ہوئیں؟‘

وزیراعظم عمران خان نے پنڈورا پیپرز کے سامنے آنے کے فوراً بعد تحقیقات کا اعلان کیا تھا۔ (فوٹو: پی آئی ڈی)

انہوں نے بتایا کہ وائٹ کالر کرائم کو پکڑنا آسان کام نہیں، پانامہ پیپرز کی تحقیقات ابھی تک چل رہی ہیں۔
’سب سے بڑا مسئلہ ہی یہ ہے کہ لوگ ایسے معاملات کے لیے جو طریقہ کار اختیار کرتے ہیں وہ بنیادی قانون کے مخالف نہیں ہوتے۔ کارپوریٹ کرائم ایک انتہائی سنجیدہ معاملہ ہے۔‘
خیال رہے کہ پانامہ پیپرز کے آنے کے بعد پاکستان کے اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف کے خلاف بڑے پیمانے پر تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ نے جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم بنائی تھی۔
اُس جے آئی ٹی رپورٹ کے مطابق انہیں اپنی وزارت عظمی سے ہاتھ دھونے پڑے تھے۔ تاہم پانامہ پیپرز میں آنے والے دیگر پاکستانیوں کے خلاف بھی تحقیقات کا آغاز کیا گیا تھا لیکن کبھی ان تحقیقات کو منظرعام پر نہیں لایا گیا۔ 
دوسری طرف پنڈورا پیپرز کی تحقیقات کے لیے حکومت کی جانب سے وزیر اعظم آفس کے تحت بنائے گئے سیل کو اپوزیشن نے مسترد کر دیا ہے۔ 

پنڈورا پیپرز میں سات سو پاکستانیوں کے نام سامنے آئے ہیں۔ (فوٹو: سکرین گریب)

وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’حکومت تحقیقات کے لیے سنجیدہ ہے اور سپیشل سیل اس لیے بنایا گیا ہے کہ تمام ادارے ایک ہی جگہ پر تحقیقات کریں۔ پنڈورا لیکس میں آنے والے ناموں کے خلاف جہاں بھی غیر قانونی چیز سامنے آئے گی اس پر گرفت ہوگی۔‘ 
انہوں نے کہا کہ نہ جانے کیوں اپوزیشن تحقیقات کی ان کوششوں میں رکاوٹ ڈالنا چاہ رہی ہے۔
’ایف بی آر کے قانون میں یہ ہے  کہ جب بھی ایسی کوئی صورت حال سامنے آئے جس میں مالی معاملات ہوں تو ایک اندرونی میکنزم کے ذریعے اس پر تحقیقات شروع ہو جاتی ہیں۔ اور یہ صرف پاکستان نہیں بلکہ دنیا بھر میں ایسے ہی ہوتا ہے کہ مالی معاملات پر نظر رکھنے والے ادارے ایسے سکینڈلز پر متحرک ہو جاتے ہیں۔ یہ ان کی ڈیوٹی میں شامل ہے۔ اپوزیشن نہیں بھی مانے تو یہ تحقیقات تو ہوں گی۔‘

شیئر: