Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عالمی رہنماؤں کی پنڈورا پیپرز کے انکشافات کے اثرات کم کرنے کی کوششیں

پنڈورا پیپرز کے انکشافات کے بعد کئی ممالک کی حکومتیں اور اعلیٰ شخصیات اس کے اثرات کو کم کرنے کی کوششیں کر رہی ہیں۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اتوار کو جاری ہونے والے لاکھوں دستاویزات پر مشتمل ’پنڈورا پیپرز‘ میں بتایا گیا ہے کہ کس طرح مختلف ممالک کے رہنماؤں نے سینکڑوں ملین ڈالر کے اثاثوں کو چھپانے کے لیے آف شور ٹیکس ہیونز کا استعمال کیا ہے۔
مالیاتی خدمات کی کمپنیوں سے لیک ہونے والی تقریباً ایک کروڑ نو لاکھ دستاویزات میں دنیا بھر کے 35 موجودہ اور سابق رہنما نمایاں ہیں۔
یہ دستاویزات جنہیں ’پنڈورا پیپرز‘ کہا جاتا ہے، بین الاقوامی کنسورشیم آف انوسٹی گیٹو جرنلسٹس (آئی سی آئی جے) نے حاصل کیے اور واشنگٹن پوسٹ، بی بی سی اور دی گارڈین سمیت میڈیا پارٹنرز کی سٹوریز میں جاری کیے گئے۔
ان رہنماؤں اور نمایاں افراد پر کرپشن سے لے کر منی لانڈرنگ اور ٹیکس سے بچنے تک کے الزامات ہیں۔

پنڈورا انکشافات عالمی رہنماؤں کے لیے شرمندگی کا باعث کیوں؟

اگرچہ بیرون ملک اثاثے رکھنا یا شیل کمپنیوں کا استعمال کرنا بیشتر ممالک میں غیر قانونی نہیں ہے، اس کے باوجود انکشافات ان رہنماؤں کے لیے شرمندگی کا باعث ہیں جنہوں نے کفایت شعاری کے اقدامات کیے یا کرپشن کے خلاف مہم چلائی ہے۔
روسی رہنما ولادیمیر پوتن کا نام ان پیپرز میں نہیں ہے لیکن بتایا گیا ہے کہ اپنے ساتھیوں کے ذریعے موناکو میں موجود خفیہ اثاثوں سے ان کا تعلق ہے۔
کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف نے کہا کہ ’یہ بڑے پیمانے پر غیر ثابت دعوؤں کا صرف ایک مجموعہ ہے۔‘
’ہم نے پوتن کے قریبی حلقے میں پوشیدہ دولت سے متعلق کچھ نہیں دیکھا۔‘

کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف نے کہا کہ ’یہ بڑے پیمانے پر غیر ثابت دعوؤں کا صرف ایک مجموعہ ہے۔‘(فوٹو: اے ایف پی)

چیک وزیراعظم نے اپنے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ’کوئی بھی الزام جو ان نجی جائیدادوں کو عوامی فنڈز یا امداد سے جوڑتا ہے وہ بے بنیاد اور جان بوجھ کر حقائق کو مسخ کرنے کی کوشش ہے۔‘
واضح رہے کہ آئی سی آئی جے نے غیرملکی ٹیکس ہیونز میں تقریباً ایک ہزار کمپنیوں اور 336 اعلیٰ سطح کے سیاست دانوں اور سرکاری عہدیداروں کے درمیان روابط کا انکشاف کیا ہے۔
ان شخصیات میں ایک درجن سے زائد حاضر سروس سربراہان مملکت، ملکی رہنما، کابینہ کے وزرا، سفیر اور دیگر شامل ہیں۔
ان میں دو تہائی سے زیادہ کمپنیاں برٹش ورجن آئی لینڈ میں قائم کی گئیں۔
آذربائیجان کے صدر الہام علییف کے خاندان اور ساتھی (جن پر طویل عرصے سے بدعنوانی کا الزام ہے) مبینہ طور پر برطانیہ میں کروڑوں مالیت کی جائیداد کے سودوں میں خفیہ طور پر ملوث رہے ہیں۔
پنڈورا دستاویزات یہ بھی ظاہر کرتی ہیں کہ کس طرح چیک کے وزیراعظم آندرج بابیس جو اس ہفتے کے آخر میں ایک الیکشن بھی لڑ رہے ہیں، وہ بھی ایک غیر ملکی سرمایہ کاری کمپنی کا اعلان کرنے میں ناکام رہے جو کہ فرانس کے جنوب میں 22 ملین ڈالر مالیت کا ایک چیٹو خریدنے کے لیے استعمال ہوئی تھی۔

آذربائیجان کے صدر الہام علییف کے خاندان اور ساتھی  مبینہ طور پر برطانیہ میں کروڑوں مالیت کی جائیداد کے سودوں میں خفیہ طور پر ملوث رہے ہیں۔ (فوٹو: ٹوئٹر)

بابیس نے ایک ٹویٹ کا جوبا دیتے ہوئے کہا کہ ’میں نے کبھی کوئی غیر قانونی یا غلط کام نہیں کیا۔‘ انہوں نے ان انکشافات کو الیکشن پر اثر انداز ہونے کی ایک غلط کوشش قرار دیا۔

کمپنی جو دولت مندوں کے لیے مقناطیس ہے

لیک ہونے والی دستاویزات میں سے تقریباً 20 لاکھ دستاویزات پاناما کی ایک قانونی کمپنی الکوگل سے آئی ہیں جس کے بارے میں آئی سی آئی جے نے کہا ہے کہ وہ ان دولت مندوں اور طاقتوروں کے لیے ایک مقناطیس بن گیا ہے جو دولت کو سمندر میں چھپانا چاہتے ہیں۔
تاہم الکوگل نے ان مبہم معاملات کے الزامات کو مسترد کر دیا ہے۔
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی مائرہ مارٹینی نے آف شور انڈسٹری کے خاتمے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ تحقیقات نے ایک بار پھر ’واضح ثبوت‘ پیش کیے ہیں کہ یہ کس طرح ’بدعنوانی اور مالی جرائم کو فروغ دیتی ہے۔

آئی سی آئی جے کی تحقیقات میں دیگر نام

پنڈروا پیپرز میں سابق برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ انہوں نے لندن کی ایک پراپرٹی پر اسٹامپ ڈیوٹی ادا کرنے سے گریز کیا ہے۔
پاکستان کے وزیراعظم عمران خان کے قریبی حلقے کے ارکان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ خفیہ طور پر لاکھوں ڈالر کی کمپنیوں اور ٹرسٹوں کے مالک ہیں۔ تاہم عمران خان نے اس عزم کا اظہار کیا کہ اگر کوئی غلطی ثابت ہوئی تو وہ مناسب کارروائی کریں گے۔
کینیا کے صدر اوہورو کینیاٹا پر مبینہ طور پر آف شور کمپنیوں کے نیٹ ورک کے مالک ہونے کا الزام ہے۔
کانگو کے صدر ڈینس ساسو نگوسو اور گبون کے علی بونگو برٹش ورجن آئی لینڈ کی کمپنیوں کے ساتھ منسلک ہیں۔
کولمبیا کی گلوکارہ شکیرا، جرمن سپر ماڈل کلاڈیا شیفر اور انڈین کرکٹ لیجنڈ سچن ٹنڈولکر کے نام بھی ہیں۔
ان تینوں کے نمائندوں نے آئی سی آئی جے کو بتایا کہ ان کی سرمایہ کاری جائز ہے۔
’پنڈورا پیپرز‘ آئی سی آئی جے کی طرف سے ہونے والے انکشافات میں سے تازہ ترین ہیں۔ اس سے قبل آئی سی آئی جے کی جانب سے 2014 میں لکس لیکس جبکہ 2016 میں پاناما پیپرز کے نام سے انکشافات کیے گئے تھے۔
اس کے بعد 2017 میں پیراڈائز پیپرز اور 2020 میں فن سین فائلز سامنے آئی تھیں۔

شیئر: