Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پنڈورا پیپرز کی تحقیقات: وزیراعظم معائنہ کمیشن کام کیسے کرتا ہے؟

’معائنہ کمیشن کسی سرکاری ادارے سے رپورٹ تو مانگ سکتا ہے لیکن کسی نجی کمپنی سے جواب طلبی نہیں کر سکتا۔‘ (فوٹو: ٹویٹر)
پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے پنڈورا پیپرز میں 700 سے زائد پاکستانیوں کی آف شور کمپنیز منظرعام پر آنے کے بعد تحقیقات کا اعلان کرتے ہوئے معائنہ کمیشن کے تحت ایک اعلیٰ سطح کا تحقیقاتی سیل قائم کرنے کا اعلان کیا ہے۔
 اس سیل کے حوالے سے مزید تفصیلات ابھی سامنے آنا باقی ہیں تاہم وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے ٹویٹ میں کہا ہے کہ ’پنڈورا لیکس کی تحقیقات کے لیے وزیراعظم پاکستان نے وزیراعظم انسپکشن کمیشن کے تحت ایک اعلیٰ سطح کا سیل قائم کیا ہے،  یہ سیل پنڈورا لیکس میں شامل تمام افراد سے جواب طلبی کرے گا اور حقائق قوم کے سامنے رکھیں جائیں گے۔‘ 

معائنہ کمیشن سیل کیسے کام کرتا ہے؟ 

وزیراعظم آفس کے حکام کے مطابق وزیراعظم کسی بھی حوالے سے تحقیقات معائنہ کمیشن کے ذریعے کروا سکتے ہیں اور اس کمیشن کے پاس متعلقہ اداروں سے جواب طلب کرنے کا اختیار ہوتا ہے۔ وزیراعظم معائنہ کمیشن براہ راست وزیراعظم کو اپنی رپورٹ پیش کرتے ہیں اور وزیراعظم اپنا صوابدیدی اختیار استعمال کرتے ہوئے کمیشن کی سفارشات پر کارروائی کی ہدایت دے سکتے ہیں۔
حکام کے مطابق ماضی میں بھی معائنہ کمیشن کی جانب سے تحقیقات وزیراعظم کو پیش کی گئی ہیں۔ 
گزشتہ دو دہائیوں سے وزیراعظم سیکرٹریٹ کی رپورٹنگ کرنے والے ڈان ٹی وی سے منسلک صحافی ثناء اللہ خان کے مطابق ’وزیراعظم معائنہ کمیشن بنیادی طور پر کسی عوامی ایشو کے حوالے سے تحقیقات کا حکم دیتے ہیں اور یہ رپورٹس خفیہ ہی رکھی جاتی ہیں، وزیراعظم کی صوابدید ہے کہ وہ رپورٹ کو منظر عام پر لائیں یا خفیہ رکھتے ہوئے سفارشات پر کارروائی کا حکم دیں۔‘
ثناء اللہ خان کے مطابق ’معائنہ کمیشن ماضی میں میگا پراجیکٹس کے حوالے سے  سرکاری اداروں سے رپورٹس طلب کرتا رہا ہے یا گورنسس کے معاملات پر اپنی رپورٹ پیش کرتا رہا ہے لیکن ٹیکس معاملات اور منی لانڈرنگ کی چھان بین کرنا معائنہ کمیشن کا کام نہیں ہے۔‘ 
انہوں نے کہا کہ ’حال ہی میں وزیراعظم نے سعودی عرب میں پاکستانی سفارت خانے میں عوامی شکایات کی تحقیقات معائنہ کمیشن سے کروائی تھیں جس میں سفیر سمیت عملے کو معطل کیا گیا تھا اور یہ انسپکشن کمیشن اسی نوعیت کی عوامی شکایات کے حوالے سے تحقیقات کرتا ہے، تاہم گزشتہ 20 برسوں میں مجھے نہیں یاد کہ کسی وزیراعظم نے ٹیکس چوری یا منی لانڈرنگ کی تحقیقات معائنہ کمیشن سے کروائی ہوں اور نہ ہی یہ اس کے مینڈیٹ کا حصہ ہے۔‘

پنڈورا لیکس کی تحقیقات کے لیے وزیراعظم پاکستان نے وزیراعظم انسپکشن کمیشن کے تحت ایک اعلیٰ سطح کا سیل قائم کیا ہے (فوٹو: آئی سی آئی جے)

انہوں نے مزید کہا کہ ’یہ ایک ایسا ایشو ہے جس کی تحقیقات ایف آئی اے یا ایف بی آر نے دیکھنی ہے یا معاملہ نیب کو بھجوایا جا سکتا ہے لیکن اس کے لیے پہلے تحقیقات کا ہونا ضروری ہے، لیکن معائنہ کمیشن کسی سرکاری آفسر کے حوالے سے شکایت پر انکوائری تو کر سکتا ہے لیکن منی لانڈرنگ کی تحقیقات وزیراعظم کے معائنہ کمیشن کے تحت نہیں ہو سکتی۔‘
ثناء اللہ خان سمجھتے ہیں کہ ’اس سے بہتر ہوتا کہ وزیراعظم ایک آزاد تحقیقاتی کمیشن کا اعلان کرتے جو ایف بی آر اور ایف آئی اے کی مدد سے چھان بین کر سکتا اور اس رپورٹ کی سفارشات کی روشنی میں معاملہ نیب یا دیگر متعلقہ ادارے کو بھجوایا جا سکتا تھا، جیسا کہ براڈشیٹ سیکنڈل میں ایک ریٹائرڈ جج کی سربراہی میں کمیشن بنایا گیا تھا۔ 
’معائنہ کمیشن کسی سرکاری ادارے سے رپورٹ تو مانگ سکتا ہے لیکن کسی نجی کمپنی سے جواب طلبی نہیں کر سکتا۔‘

شیئر: