Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بلوچستان میں خاتون اور مرد کے قتل میں ملوث 11 افراد گرفتار، عدالت کا قبر کشائی کا حکم

اتوار کو ایک ویڈیو وائرل ہوئی تھی جس میں مبینہ طور پر ایک خاتون اور مرد کو قتل کیا گیا (فوٹو: سکرین گریب)
بلوچستان میں ایک مقامی سردار کے فیصلے کے نتیجے میں ’کاروکاری کے الزام‘ میں ایک خاتون اور مرد کے لرزہ خیز قتل میں ملوث 11 ملزموں کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔
دوسری جانب کوئٹہ کی مقامی عدالت نے پولیس کی درخواست پر قبر کشائی کا حکم دیا ہے۔
پیر کو بلوچستان کے وزیراعلٰی سرفراز بگٹی نے کل ایک خاتون اور مرد کے قتل کی وائرل ویڈیو کے بعد کارروائی کی اپ ڈیٹ دیتے ہوئے لکھا کہ ’اب تک 11 ملزم گرفتار کیے جا چکے ہیں۔ آپریشن ابھی جاری ہے۔ تمام ملوث افراد کو کیفرکردار تک پہنچایا جائے گا۔ ریاست مظلوم کے ساتھ کھڑی ہے۔‘
پولیس نے معاملے کو ’غیرت کے نام پر قتل‘ کا واقعہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے یہ ڈیڑھ مہینہ پرانا اور کوئٹہ کے نواحی علاقے مارگٹ کے قریب پیش آیا تاہم اس کی ویڈیوز اتوار کو سامنے آئیں۔
پولیس کا کہنا ہے کہ واردات میں خاتون کے بھائی، قریبی رشتہ دار اور قبیلے کے دوسرے افراد بھی ملوث ہیں جنہوں نے قبائلی سردار کی جانب سے خاتون اور مرد کو ’کاروکاری‘ قرار دیتے ہوئے جان سے مارنے کا فیصلہ سنایا۔
ابتدائی تحقیقات کی بنیاد پر پولیس نے چھاپے مار کر قبائلی سردار اور خاتون کے قریبی رشتہ دار سمیت متعدد افراد کو گرفتار کیا۔
کوئٹہ پولیس کے ایک سینیئر افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اردو نیوز کو بتایا کہ گرفتار ہونے والوں کو سیریس کرائم انویسٹی گیشن ونگ (ایس سی آئی ڈبلیو) کے حوالے کیا گیا ہے۔
’مقتولین کے قبر کشائی کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے اور اس سلسلے میں میجسٹریٹ کو درخواست جمع کرائی جا رہی ہے جبکہ گرفتار ملزموں کو جسمانی ریمانڈ حاصل کرنے لیے آج عدالت میں پیش کیا جائے گا۔‘
ابتدائی تحقیقات میں مقتولہ کی شناخت بانو بی بی کے نام سے ہوئی ہے، ان کا تعلق ساتکزئی قبیلے سے تھا اور عمر 40 سال تھیں جبکہ مرد کا نام احسان اللہ تھا اور ان کا تعلق سمالانی قبیلے سے تھا۔
ایس ایچ او ہنہ تھانے کی مدعیت میں درج ہونے والی ایف آئی آر میں بتایا گیا ہے کہ ویڈیو سامنے آنے کے بعد پولیس ٹیم نے سنجیدی، ڈیگاری اور مارگٹ کے علاقوں کے دورے کیے اور معلوم ہوا کہ واقعہ عید سے تین روز قبل سنجیدی ڈیگاری میں پیش آیا۔
ایف آئی آر کے مطابق ’بانو بی بی اور احسان اللہ کو آٹھ معلوم اور 14،15 نامعلوم افراد گاڑیوں میں بٹھا سردار کے پاس لے گئے جہاں قتل کا فیصلہ سنایا گیا۔ جس پر عمل کیا گیا اور اس واقعے کی ویڈیوز بھی بنائی گئیں۔‘
مقدمے میں قتل اور تعزیرات پاکستان کی دفعات کے علاوہ دہشتگردی کی دفعات بھی شامل کی گئی ہیں۔
ایف آئی آر میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ملزمان میں سے کسی نے وقوعہ کی ویڈیو سوشل میڈیا پر اپلوڈ کر کے عوام میں خوف و ہراس پھلایا۔
پولیس افسر کے مطابق ’مقدمے میں نامزد کیے گیے افراد میں جلال ساتکزئی مرکزی کرداروں میں شامل ہے جو خاتون کا بھائی ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ویڈیو منظرعام پر آنے کے بعد جلال ساتکزئی اور دیگر رشتہ دار فرار ہو چکے ہیں، تاہم ان کی تلاش کے لیے چھاپے مارے جا رہے ہیں۔‘
پولیس ذرائع کے مطابق ’مقتولین کو الگ الگ قبرستانوں میں دفنایا گیا اور اب قبر کشائی کر کے پوسٹ مارٹم کا فیصلہ کیا گیا ہے تاکہ فرانزک شواہد حاصل کیے جا سکیں۔‘
اس سے قبل بلوچستان حکومت کے ترجمان شاہد رند نے اتوار کو پریس کانفرنس کرتے ہوئے تصدیق کی تھی کہ میڈیا پر وائرل ہونے والی خاتون اور مرد کے قتل کی ویڈیو بلوچستان کی حدود میں عید الاضحیٰ کے دوران ریکارڈ کی گئی۔
ترجمان نے بتایا کہ ابتدائی تحقیقات میں واقعے کے مقام کی نشاندہی کر لی گئی ہے اور نادرا کی مدد سے ویڈیو میں نظر آنے والے افراد کے چہروں کی شناخت کا عمل جاری ہے۔
مقتول کے قبیلے سمالانی کے سردار فیصل سمالانی نے اردو نیوز کے رابطہ کرنے پر بتایا کہ انہیں واقعے کا علم سوشل میڈیا کے ذریعے ہوا۔
ان کے مطابق ’جس علاقے میں واقعہ پیش آیا وہاں موبائل نیٹ ورک کام نہیں کرتا اس لیے ہماری معلومات محدود ہیں، حقائق تبھی سامنے آئیں گے جب دونوں فریقین کا مؤقف سنا جائے گا اور تحقیقات ہوں گی۔‘
ابھی تک مقتول احسان اللہ کے خاندان کی جانب سے واقعے پر کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا۔
پولیس حکام کا کہنا ہے کہ ’اگر یہ نکاح پر نکاح کا کیس بھی ہوتا تو بھی کسی کو نام نہاد قبائلی روایات کے نام پر قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں اس کے لیے قانونی فورمز موجود ہیں۔‘
وزیراعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی نے اپنے بیان میں اس واقعہ کو ناقابل برداشت، معاشرتی اقدار اور انسانی وقار کی سنگین توہین قرار دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ریاست کی عملداری کو چیلنج کرنے والوں سے سختی سے نمٹا جائے گا اور کسی کو قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔‘
ترجمان بلوچستان حکومت شاہد رند کا کہنا ہے کہ ابھی تک لاشیں برآمد نہیں ہو سکیں لیکن ہر زاویے سے تفتیش کر رہی ہے اور کسی قسم کا قبائلی یا سیاسی دباؤ قبول نہیں کیا جائے گا۔‘
انہوں نے اسے بلوچستان حکومت کے لیے ٹیسٹ کیس قرار دیتے ہوئے کہا کہ انصاف کی مکمل فراہمی کو یقینی بنایا جائے گا۔
واقعہ کس علاقے میں پیش آیا؟
پولیس کا کہنا ہے کہ واقعہ کوئٹہ کے تھانہ ہنہ کی حدود میں سنجیدی میدانی علاقے میں پیش آیا جو تھانے سے تقریباً 40 سے 45 کلومیٹر مشرق کی جانب واقع ہے۔
تاہم مقامی باشندوں کا کہنا ہے کہ یہ علاقہ دراصل مارگٹ کے نام سے جانا جاتا ہے جو کوئٹہ سے تقریباً 50 کلومیٹر دور ہے۔ یہاں تک دو راستے جاتے ہیں جو انتہائی دشوار گزار ہیں۔
سکیورٹی کے لحاظ سے بھی یہ علاقہ نہایت حساس شمار ہوتا ہے۔ ایک دوسرے ملحقہ مارگٹ، سنجیدی، مارواڑ اور ڈیگاری کے علاقوں میں کالعدم بلوچ مسلح تنظیمیں بھی سرگرم رہتی ہیں اور یہاں سکیورٹی فورسز پر حملے بھی ہو چکے ہیں۔
بدامنی کے مسلسل واقعات اور کالعدم تنظیموں کی موجودگی کی وجہ سے یہ نو گو ایریا سمجھا جاتا ہے ۔ پہلے یہ علاقہ قبائلی لیویز فورس کی عملداری میں آتا تھا تاہم چند سال قبل لیویز کو پولیس میں ضم کر کے ذمہ داری پولیس کو سونپ دی گئی۔ یہاں پولیس کی کوئی چوکی ہے اور نہ ہی سکیورٹی خدشات کی وجہ سے پولیس گشت کرتی ہے۔
مارگٹ، مارواڑ، ڈیگاری اور ملحقہ دیہی علاقوں میں سمالانی، ساتکزئی، کرد اور دیگر براہوی و بلوچ قبائل سے تعلق رکھنے والوں کی اکثریت ہے۔ یہاں آبادی انتہائی کم ہے اور بنیادی سہولیات کا فقدان ہے اور موبائل نیٹ ورک بھی کام نہیں کرتا۔

شیئر: