Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’ہم کیوں نہیں پڑھ سکتے؟‘ افغان لڑکیوں کی ہائی سکول جانے پر ابھی تک پابندی

طالبہ آمنہ نے اپنے درجنوں ہم جماعتوں کو اس وقت قتل ہوتے دیکھا جب مئی میں شدت پسند تنظیم داعش نے ان کے سکول کو نشانہ بنایا تاہم اس کے باوجود وہ اپنی تعلیم جاری رکھنے کے لیے پُرعزم ہیں۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اب دیگر ہائی سکول کی لڑکیوں کی طرح ان پر بھی سکول جانے پر پابندی ہے۔
طالبان کی حکومت نے گذشتہ مہینے لڑکیوں کی سکول جانے پر پابندی عائد کی تھی۔
16 برس کی آمنہ نے بتایا کہ ’میں پڑھنا چاہتی ہوں، اپنے دوستوں کو دیکھنا چاہتی ہوں اور ایک روشن مستقبل چاہتی ہوں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’یہ صورتحال مجھے خوفناک محسوس ہوتی ہے۔ جب سے طالبان آئے ہیں میں بہت اداس اور غصے میں ہوں۔‘
18 ستمبر کو افغانستان کے نئے حکمرانوں نے لڑکوں اور اساتذہ کو ہائی سکول جانے کی اجازت دے دی تاہم لڑکیوں اور خواتین اساتذہ کو سکول جانے کے اجازت ابھی تک نہیں دی گئی ہے۔
بعد میں طالبان نے کہا تھا کہ جیسے ہی سکیورٹی کی صورتحال بہتر ہوتی ہے اور دیگر انتظامات ہوتے ہیں تو لڑکیوں کو سکول جانے کی اجازت ہوگی۔
حالیہ دنوں میں ایسی رپورٹس سامنے آئی ہیں کہ کچھ ہائی سکولز کھل گئے ہیں۔

افغانستان میں طالبات کے لیے پرائمری سکولز کھلے ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)

یونیسیف کی ایک سینیئر اہلکار نے جمعے کو کہا تھا کہ طالبان لڑکیوں کو سکول بھیجنے کے لیے جلد لائحہ عمل کا اعلان کریں گے۔
لیکن فی الحال افغانستان میں تین کروڑ 90 لاکھ لڑکیاں سکول نہیں جا رہی۔
پرائمری سکولز دوبارہ سے کھل گئے ہیں اور خواتین یونیورسٹی بھی جا سکتی ہیں۔
آمنہ کابل میں سید الشہدا ہائی سکول کے قریب رہتی ہیں۔ مئی میں ہونے والے دھماکے کو یاد کرکے کہتی ہیں کہ اس میں معصوم لڑکیاں ہلاک ہوئی تھیں۔
’میں نے اپنی آنکھوں سے لڑکیوں کو مرتے دیکھا اور زخمی لڑکیوں کو بھی۔ لیکن میں اب بھی سکول جانا چاہتی ہوں۔‘
ان  کا کہنا ہے کہ انہوں نے صحافی بننے کا خواب دیکھا تھا لیکن اب افغانستان میں ان کو امید نہیں۔
آمنہ آج کل ایک سائیکالوجسٹ سے کبھی کبھی پڑھ لیتی ہیں، یہ سائیکالوجسٹ ان کی بہن کے علاج کے لیے آتے ہیں۔ ان کی بہن سکول پر حملے کے بعد اب بھی خوفزدہ ہیں۔
’میرے بھائی میرے لیے کہانیوں کی کتابیں لاتے ہیں اور میں ان کو پڑھتی ہوں اور میں ہمیشہ خبریں بھی دیکھتی ہوں۔‘

ہائی سکول کی استانی نسرین حسانی اب پرائمری سکول کی طالبات کو پڑھاتی ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)

تاہم ان کو اس کی سمجھ نہیں آ رہی کہ صرف لڑکوں کو کیوں جانے کی اجازت ہے، لڑکیوں کو کیوں نہیں۔
’معاشرے کا آدھا حصہ لڑکیوں پر مشتمل ہے جبکہ دیگر آدھا حصہ لڑکوں پر۔ ان میں کوئی فرق نہیں۔‘
’ہم کیوں نہیں پڑھ سکتے؟ کیا ہم اس معاشرے کا حصہ نہیں، کیا صرف لڑکوں کا مستقبل ہے؟‘
2001 میں افغانستان پر امریکی حملے کے بعد لڑکیوں کی تعلیم میں بہتری آئی تھی۔ سکولوں کی تعداد تین گنا ہوگئی تھی اور خواتین کی خواندگی دگنی ہو کر 30 فیصد ہوگئی تھی۔

2001 کے بعد زیادہ تعداد میں لڑکیاں سکول جانے لگی تھیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)

21 برس کی استانی نسرین حسانی جو کابل کے سیکنڈری سکول میں پڑھاتی تھی اب پرائمری سکول کی طالبات کو پڑھا رہی ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ’افغان خواتین نے گذشتہ 20 برسوں میں بڑی کامیابیاں حاصل کی ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ موجودہ صورتحال سے اساتذہ اور طالبات کے حوصلے پست ہوئے ہیں۔ جہاں تک ہم سب کو معلوم ہے اسلام کبھی بھی خواتین کی تعلیم اور کام میں رکاوٹ نہیں بنا۔‘

شیئر: