Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

منی بجٹ میں توانائی، تعلیم، صحت اور مشینری مہنگی ہونے کا امکان

مشیر خزانہ شوکت ترین نے اردو نیوز کو بتایا تھا کہ منی بجٹ میں کوئی نیا ٹیکس نہیں لگے گا۔ فائل فوٹو: اے پی پی
پاکستان میں معاشی ماہرین نے منی بجٹ کے ذریعے مہنگائی نہ ہونے کے حکومتی دعوے کو غلط قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ نئے ٹیکسوں کا بالواسطہ اثر اشیائے خورد و نوش پر ہوگا جبکہ تعلیم، علاج معالجہ اور مشینری مہنگی ہوگی۔ اسی طرح سرمایہ کاری میں کمی اور روزگار کے مواقع کم ہونے کا بھی امکان ہے۔
مشیر خزانہ شوکت ترین نے اردو نیوز کو انٹرویو میں بتایا تھا کہ ’حکومت آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کے تحت منی بجٹ اگلے ہفتے لا رہی ہے تاہم اس سے مہنگائی نہیں ہوگی کیونکہ عام آدمی کے استعمال کی اشیا پر ٹیکس کی چھوٹ ختم نہیں ہو گی۔‘
منی بجٹ لانے کے لیے حکومت نے پیر کو قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے کا فیصلہ کیا ہے جس میں منی بجٹ پیش کیا جائے گا۔
ایک ایسے وقت میں جب وزرا ایک بار پھر ملکی معیشت میں بہتری کے دعوے کر رہے ہیں اور حکومت کے ترجمان وزیر اطلاعات فواد چوہدری مہنگائی کی بات کرنے والوں کو جواب دیتے ہوئے اکثر کہتے دکھائی دیتے ہیں کہ ’ایک طرف تو ہم کہتے ہیں مہنگائی ہے لیکن دوسری طرف صرف ایگریکلچر سیکٹر میں کسانوں کو پچھلے سال 400 ارب روپے کی اضافی آمدن ہوئی ہے۔ گندم کی جو گروتھ ہوئی اس کے نتیجے میں 118 ارب، کاٹن سے 136 ارب، چاول کی بہتر پیداوار سے 46 ارب اور گنے سے 96 ارب روپے اضافی کسانوں کو ملے۔ اس کے باوجود منی بجٹ آ رہا ہے تو اس کی وجہ کیا ہے؟‘
سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ پاشا نے اردو نیوز سے گفتگو میں بتایا کہ ’یہ بجٹ آئی ایم ایف پروگرام کے تحت لایا جا رہا ہے۔ اگر آئی ایم ایف کی شرط نہ ہوتی تو حکومت منی بجٹ نہ لاتی۔ منی بجٹ اس لیے لایا جاتا ہے کہ حکومتی محصولات میں کمی ہو رہی ہو جبکہ اس وقت ایف بی آر کے محصولات میں بے تحاشا اضافہ ہوا ہے۔ حکومت نے جب آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے پر مارچ میں دستخط کیے تھے۔ اس وقت حکومت نے کہا تھا کہ ہم سیلز ٹیکس کی چھوٹ یا کم شرح ختم کر دیں گے۔ اب جب بجٹ آ رہا ہے تو وہ چھوٹ ختم کی جا رہی ہے۔ منی بجٹ لانے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ حکومت کو 300 ارب روپے سے زائد کی رقم درکار ہے۔‘
معاشی ماہر ساجد امین کا کہنا ہے کہ ’سالانہ بجٹ اس لیے دیا جاتا ہے کہ مارکیٹ میں بے یقینی کی صورت حال پیدا نہ ہو۔ جب بھی منی بجٹ آتا ہے وہ حکومت کی بری کارکردگی کا مظہر ہوتا ہے۔ منی بجٹ کبھی بھی پسند نہیں کیے جاتے کیونکہ اس سے مارکیٹ میں حکومتوں پر اعتبار ختم ہو جاتا ہے اور سمجھا جاتا ہے کہ سالانہ بجٹ میں دیے گئے حکومت کے تخمینے غلط تھے اور ان کی ساکھ ختم ہو جاتی ہے۔ اس لیے منی بجٹ کسی بھی حکومت کے لیے اچھا نہیں ہوتا۔‘

معاشی ماہرین کے مطابق نئے ٹیکسوں کا بالواسطہ اثر اشیائے خورد و نوش کی قیمتوں پر ہوگا۔ (فوٹو: اے ایف پی)

حکومت کی جانب سے مختلف شعبوں میں ٹیکس چھوٹ کے خاتمے کا مہنگائی پر کیا اثر پڑے گا؟ اس حوالے سے ڈاکٹر حفیظ پاشا نے کہا کہ ’یہ سچ ہے کہ اشیائے خورد و نوش پر سیلز ٹیکس چھوٹ ختم نہیں کی جا رہی لیکن سب سے پہلے زرعی شعبے کی پیداوار میں استعمال ہونے والی اشیا پر ٹیکس چھوٹ ختم ہو رہی ہے جن میں بیج، ٹریکٹرز وغیرہ پر سیلز ٹیکس لگایا جا رہا ہے۔ جس کا اثر جلد یا بدیر اشیائے خورد و نوش کی قیمتوں پر پڑے گا۔‘
انھوں نے کہا کہ ’اس کے علاوہ صحت کے شعبے میں طبی آلات، دوائیوں میں استعمال ہونے والے خام مال پر بھی ٹیکس لگ رہا ہے جس سے علاج معالجہ مہنگا ہوگا۔ تعلیم کے شعبے میں کتابوں، پنسلوں، سٹیشنری پر بھی سیلز ٹیکس لگے جس سے تعلیم مہنگی ہوگی۔‘
ڈاکٹر حفیظ پاشا کے مطابق ’ہر طرح کی مشینری پر بھی سیلز ٹیکس عائد کیا جا رہا ہے۔ اس سے سرمایہ کاری کی لاگت بڑھے گی اور سرمایہ کاری کم ہوگی۔ اس سے روزگار کے مواقع کم ہوں گے جس کا آگے چل کر ملکی ترقی کی شرح پر بھی اثر ہوگا۔‘
اس حوالے سے ڈاکٹر ساجد امین کا کہنا ہے کہ ’منی بجٹ لانے والی ہر حکومت یہ کہتی ہے کہ اس سے مہنگائی نہیں ہوگی۔ اشیائے خوردونوش پر نہیں بلکہ لگژری اشیا پر ٹیکس لگایا جا رہا ہے کیونکہ حکومت نے منی بجٹ کا جواز تراشنا ہوتا ہے۔ لیکن آپ دیکھیں کہ ایک تو اس بجٹ میں 200 سے 250 ارب ترقیاتی بجٹ پر کٹ لگایا جا رہا ہے۔ دوسرا توانائی پر سبسڈی ختم کرتے ہوئے اس کی قیمتوں میں اضافہ کیا جا رہا ہے۔ جب توانائی کی قیمت بڑھتی ہے تو باقی اشیا کی قیمتیں بھی بڑھ جاتی ہیں۔‘

ماہرین کے مطابق منی بجٹ میں چھ کھرب روپے کی مالی ایڈجسٹمنٹس اور اخراجات کی کٹوتیاں شامل ہیں۔ فوٹو: اے پی پی

انھوں نے کہا کہ ’بجلی اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں پاکستان میں مہنگائی میں کمی یا اضافے کی وجوہات میں سب سے اہم ہوتی ہیں۔ منی بجٹ میں بھی جب توانائی کے شعبے پر ٹیکس لگیں گے۔ ہر ماہ لیویز بڑھائی جائے گی تو مہنگائی مزید بڑھے گی۔‘
ماہرین کے مطابق منی بجٹ میں چھ کھرب روپے کی مالی ایڈجسٹمنٹس اور اخراجات کی کٹوتیاں شامل ہیں جبکہ ٹیکس چھوٹ کے خاتمے سے 350 ارب روپے حاصل ہوں گے۔

شیئر: