Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سٹیم انجن واٹر پمپ، لاہور میں برطانوی عہد کی نشانی

لاہور جنوبی ایشیا کے ان پرانے شہروں میں سے ایک ہے جو اپنی ثقافت اور تہذیب کی وجہ سے آج بھی اپنی شناخت قائم رکھے ہوئے ہیں۔
لاہور وقت کے ساتھ ساتھ جدید تو ہو گیا لیکن ابھی بھی شہر کے قدیم علاقوں میں مغلیہ دور اور برطانوی راج کی ایسی ایسی نشانیاں موجود ہیں جو ایک دلچسپ تاریخ کی شاہد ہیں۔ 
ایسی ہی ایک نشانی بادامی باغ لاری اڈے کے پہلو میں مسافر خانے کے پاس دکھائی دیتی ہے۔  
بظاہر تو یہ ایک سرخ اینٹوں کی ایک پرانی سی کھنڈر نما عمارت ہے لیکن یہ اپنے اندر ایک پرانے عہد کی جدیدیت کو سموئے ہوئے ہے۔ 
یہ لاہور کے پہلے واٹر سسٹم کے سٹیم انجن کی عمارت ہے۔ یہ سٹیم انجن انگریزوں نے سنہ 1883 میں لاہور کی پانی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے برطانیہ سے یہاں منتقل کیا تھا۔ 
باہر سے عمارت کے ساتھ نصب ایک اونچی لمبی چمنی آپ کی توجہ اپنی طرف کھینچتی ہے۔ جیسے ہی آپ اس چمنی کے ساتھ واقع گیٹ میں داخل ہوتے ہیں تو آپ کا سامنا ایک کھنڈر نما عمارت کے ٹوٹے ہوئے دروازے سے ہوتا ہے۔ دروازے سے اندر جھانکنے پر آپ کو ایک جہازی سائز مشین دکھائی دیتی ہے۔ یہ اسی سٹیم انجن کا ڈھانچہ ہے جو انگریزوں کے دور میں شہر کو پانی سپلائی کرنے کا ضامن تھا۔  
اس سٹیم انجن کی لوہے سے بنی بڑی بڑی گراریاں ٹائٹینک جہاز کے سٹیم انجن کی گراریوں سے ملتی جلتی محسوس ہوتی ہیں۔ یہ جگہ شاہی قلعے اور اندرون لاہور کی فصیل سے تقریباً 500 میٹر کے فاصلے پر ہے۔  
یہ انجن اِس وقت واسا کے زیر انتظام ہے جو اس کو ایک عجائب گھر بنا کر محفوظ کرنے کی تگ و دو میں لگا ہوا ہے۔

سٹیم انجن لاہور میں پانی کی ضروریات کو پورا کرتا تھا۔ فوٹو اردو نیوز

واسا کے ڈپٹی مینیجنگ ڈائریکٹر غفران احمد نے اس سٹیم انجن سے متعلق اردو نیوز کو بتایا کہ ’والڈ سٹی میں اس سے پہلے پانی ماشکی دیا کرتے تھے جو دریا سے پانی لے کر گھر گھر پہنچاتے تھے۔‘  
’بعد میں انگریز حکام نے 1883 میں ایک سٹیم انجن لگایا۔ چونکہ انگریز سٹیم انجن ٹیکنالوجی میں پرفیکٹ تھے سو انہوں نے لاہور کو پانی سپلائی کرنے کے لیے ایسا منصوبہ بنایا جو دریا سے پانی لا کر گھروں تک مہیا کرے۔ والڈ سٹی میں ’پانی والے تالاب‘ کا ذخیرہ بنایا گیا جس میں دس لاکھ گیلن پانی جمع ہو سکتا ہے۔ یہاں سے اس سٹیم انجن کے ذریعے پانی سپلائی کرتے تھے۔‘ 
یہ واٹر سپلائی سسٹم دوحصوں پر مشتمل تھا۔ ایک طرف یہ سٹیم انجن دریائے راوی سے پانی کو طاقتور ہائیڈرولک سسٹم سے کھینچ کر لاتا تھا تو دوسرے حصے میں ایک بہت بڑے تالاب میں اس پانی کو اکھٹا کیا جاتا تھا جو آج بھی ’پانی والے تالاب‘ کے نام سے اندرون لاہور میں موجود ہے۔ اس تالاب سے پانی پورے لاہور میں سپلائی کیا جاتا تھا۔  
غفران احمد نے بتایا کہ ’یہ سٹیم انجن کوئلے سے چلتا تھا جو اس دس لاکھ گیلن والے تالاب میں پانی پہنچاتا تھا اور پھر وہاں سے پورے والڈ سٹی میں یہ پانی سپلائی کیا جاتا تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ ٹیکنالوجی پرانی ہوتی گئی اور ان کی جگہ ٹیوب ویل آ گئے مگر یہ نظام 1970 تک کام کرتا رہا ہے۔‘ 
انہوں نے بتایا کہ ’اس کے بعد ٹربائن سسٹم آ گیا جسے ہم ٹیوب ویل کہتے ہیں جو والڈ سٹی کے گرد لگائے گئے جبکہ انگریز کے زمانے کا پانی والا تالاب آج بھی فنکشنل ہے۔ اسی کے ذریعے ہم والڈ سٹی کو پانی سپلائی کرتے ہیں۔‘

کوئلے سے چلنے والا یہ سٹیم انجن 1970 تک کام کرتا رہا۔ فوٹو اردو نیوز

غفران احمد نے بتایا کہ سٹیم انجن کو سنہ 1970 میں ختم کر دیا گیا تھا لیکن واسا نے اسے اصلی حالت میں محفوظ کیا ہوا ہے۔
واسا اب اس دیوہیکل انجن کو ایک نادر یادگار کے طور پر محفوظ کرنا چاہتا ہے اور اس حوالے سے والڈ سٹی اتھارٹی کے ساتھ کئی ایک میٹنگز بھی ہو چکی ہیں۔ واسا سمجھتا ہے کہ اس سسٹم کے ناقابل استعمال حصوں کو مستقل طور پر محفوظ کرنا ایک تاریخی اثاثے کو محفوظ کرنے کے مترادف ہے۔

شیئر: