Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستان اور انڈیا کی فارماسوٹیکل کمپنیوں میں ادائیگیوں کا تنازع

پاکستان تقریباً 15 کروڑ 20 لاکھ ڈالر کا خام مال انڈیا سے درآمد کرتا ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
انڈیا کے ایوان بالا راجیہ سبھا میں وزیر مملکت برائے صنعت و تجارت انوپریا پٹیل کی جانب سے جمع کروائے گئے تحریری جواب میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کی پانچ فارماسوٹیکل کمپنیاں انڈین سپلائرز کمپنیوں کی مقروض ہیں۔
ان کے مطابق ’پاکستانی کمپنیوں نے انڈین کمپنیوں کے دو کروڑ 82 لاکھ انڈین روپے جو کہ چھ کروڑ 65 لاکھ پاکستانی روپے سے زائد بنتے ہیں، ان کی ادائیگیاں کرنی ہیں اور نہیں کر رہیں۔‘
انڈین وزیر کی جانب سے فراہم کی گئی یہ معلومات سامنے آنے کے بعد دونوں ممالک کے درمیان بظاہر ایک اور تنازع پیدا ہو گیا ہے۔
پاکستانی کمپنیوں نے انڈین وزیر کے اس دعوے کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ انھوں نے غلط بیانی سے کام لیا ہے۔ پاکستانی کمپنیاں انڈین کمپنیوں کی جانب سے کلیئرنس لیٹر بھی سامنے لے آئی ہیں۔ 
انڈین راجیہ سبھا میں جمع کروائے گئے تحریری جواب میں انوپریا پٹیل نے بتایا کہ پاکستانی کمپنیوں نے انڈیا کی کمپنیوں سے فارماسوٹیکل سے متعلق اشیا درآمد کیں لیکن پاکستانی کمپنیوں نے ان کی ادائیگیاں روک رکھی ہیں۔ پاکستانی حکام کے ساتھ اسلام آباد میں ہائی کمیشن کے ذریعے معاملہ اٹھایا ہے۔ 
انھوں نے کہا کہ یہ ادائیگیاں امریکی ڈالر میں کی جانی ہیں جو تین لاکھ 73 ہزار 545 ڈالرز کی ہیں جو انڈین دو کروڑ 82 لاکھ روپے بنتے ہیں۔ 
ان کے مطابق تین پاکستانی کمپنیوں پریز فارما سوٹیکل، ریگل فارما سوٹیکل اور میٹرو فارما سوٹیکل نے انڈین کمپنی ہندوستان کیمیکلز اینڈ فارماسوٹیکل کی سات ہزار 385 ڈالرز، میزڈین لیبارٹریز پرائیویٹ لمیٹڈ اسلام آباد نے پونے کی کمپنی اورین لائف سائنسز کی ایک لاکھ، دو ہزار 350 ڈالرز جبکہ صائم فارما سوٹیکل اسلام آباد نے اورین کی ایک لاکھ 25 ہزار 250 ڈالر اور ایک اور انڈین انویر فارما ٹیک کی ایک لاکھ 20 ہزار 660 ڈالرز کی ادائیگیاں کرنی ہیں۔ 

انوپریا پٹیل نے دعویٰ کیا کہ پاکستان کی طرف تین لاکھ 73 ہزار 545 ڈالرز واجب الادا ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)

اس حوالے سے جب پاکستانی کمپنیوں سے رابطہ کیا گیا تو ان کا موقف تھا کہ انڈین وزارت تجارت اور ان کی وزیر نے پرانی معلومات پر انحصار کیا جبکہ کمپنیاں اپنے بقایا جات کلیئر کر چکی ہیں۔ 
میٹرو فارما سوٹیکل اسلام آباد کی مینجنگ ڈائریکٹر نصیر احمد خان نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’جب یہ اطلاع ملی کہ انڈین وزیر کی جانب سے ایسا کوئی جواب راجیہ سبھا میں جمع کروایا گیا ہے تو ہم نے فوری طور انڈین کمپنی ہندوستان کیمیکلز اور فارماسوٹیکل سے رابطہ کیا۔ کمپنی نہ صرف ہمیں ایک لیٹر جاری کیا بلکہ انڈین وزارت کو بھی آگاہ کیا کہ ہم نے ان کے تمام بقایا جات کلیئر کر رکھے ہیں۔‘ 
انھوں نے کہا کہ ’انڈین وزارت تجارت اور وزیر مملکت نے غلط بیانی سے کام لیتے ہوئے ہماری ساکھ کو نقصان پہنچایا ہے۔ جس طرح تحریری طور پر انھوں نے یہ معلومات دی ہیں اسی طرح وہ ہم سے معافی مانگیں۔ ہم اس معاملے کو انڈین ہائی کمیشن کے ذریعے بار بار اٹھاتے رہیں گے۔‘ 
اردو نیوز نے دیگر پاکستانی کمپنیوں سے بھی رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن وہ دستیاب نہیں ہو سکیں تاہم پاکستان فارماسسٹ ایسوسی ایشن کے صدر نور مہر نے اس کو پاکستان مخالف پراپیگنڈہ قرار دیتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ اس پراپیگنڈہ مہم کو بند ہونا چاہیے۔ 

پاکستانی کمپنیاں انڈیا سے خام مال اور جڑی بوٹیاں درآمد کرتی ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)

اردو نیوز سے گفتگو میں انھوں نے کہا کہ ’پاکستان کی کوئی بھی فارماسوٹیکل کمپنی انڈین کمپنیوں کی مقروض نہیں ہے۔ انڈین وزارت کامرس پاکستان کی کمپنیوں سے معافی مانگے۔ اگر پاکستانی فارماسوٹیکل کے خلاف انڈین پراپیگنڈہ بند نہ کیا گیا تو ینگ فارماسسٹ ایسوسی ایشن 25 دسمبر کو واہگہ بارڈر پر احتجاجی مظاہرہ کرے گی۔‘
خیال رہے کہ پاکستانی فارما سوٹیکل کمپنیاں ادویہ سازی کے لیے انڈیا سے خام مال اور جڑی بوٹیاں منگواتی ہیں۔ 2016-2017 میں پاکستان انڈیا سے فارماسوٹیکل کے شعبہ میں تقریباً 13 کروڑ ڈالرز کی اشیا منگواتا تھا جو 2020-2021 میں دو کروڑ30 لاکھ ڈالر کے اضافے کے ساتھ  15 کروڑ 20 لاکھ ڈالر تک پہنچ چکی ہیں۔ 
انڈیا کی جانب سے پانچ اگست کے اقدام کے بعد پاکستان نے انڈیا کے ساتھ تجات بند کر دی تھی تاہم ادویات کے لیے خام مال کی کمی اور پھر کورونا کی صورت حال کے پیش نظر ادویات کے شعبہ میں تجارت کی اجازت دے دی گئی تھی۔

شیئر: