Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کابل کی یخ بستہ صبح میں پاسپورٹ کے لیے لگی طویل قطاریں

افغانستان میں طالبان حکومت کی جانب سے سفری دستاویزات کا اجرا دوبارہ شروع کرنے کے اعلان کے ایک دن بعد سینکڑوں افراد نے افغانستان کے دارالحکومت میں صفر سے نیچے کے درجہ حرارت کو برداشت کرتے ہوئے پاسپورٹ آفس کے باہر قطاریں لگائیں۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق بہت سے افراد نے اتوار کی رات سے ہی انتظار شروع کر دیا تھا-
ان میں سے کچھ افراد علاج کے لیے ملک چھوڑنے کے لیے بے چین تھے جبکہ دیگر طالبان کی نئی حکمرانی سے بچنے کے لیے ملک سے نکلنا چاہتے ہیں۔
’ہم نہیں چاہتے کہ کوئی خودکش حملہ ہو‘

طالبان کے سیکورٹی اہلکار نے کہا کہ ’یہاں ہماری ذمہ داری لوگوں کی حفاظت کرنا ہے لیکن لوگ تعاون نہیں کر رہے ہیں‘ (فوٹو: اے ایف پی)

سخت گیر طالبان کے اہلکار وقتاً فوقتاً قطار کے سامنے اور قریبی روڈ پر بننے والے ہجوم پر لاٹھی چارج کرتے تھے۔
وہاں موجود طالبان کے 22 سالہ سکیورٹی اہلکار اجمل طوفان نے ہجوم کے خطرات کے بارے میں خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم نہیں چاہتے کہ کوئی خودکش حملہ یا دھماکہ ہو۔‘
واضح رہے کہ طالبان کے حریف داعش گروپ کی مقامی شاخ نے اگست کے اواخر میں 150 سے زیادہ افراد کو ہلاک کر دیا تھا جب نئی حکومت کے ابتدائی دنوں میں شہریوں نے کابل ایئرپورٹ کے ذریعے ملک سے نکلنے کی ایک مایوس کن کوشش کی۔
اجمل طوفان نے کہا کہ ’یہاں ہماری ذمہ داری لوگوں کی حفاظت کرنا ہے لیکن لوگ تعاون نہیں کر رہے ہیں۔‘
یہ کہتے ہوئے اس کی بندوق پیشہ ورانہ انداز میں زمین کی طرف تھی۔
جب اجمل طوفان اے ایف پی سے بات کر رہے تھے، اس وقت ان کے ایک ساتھی نے ایک شخص کو دھکیل دیا جو خاردار تاروں کے ایک بنڈل سے بالکل نیچے گر گیا۔
پاسپورٹ آفس کے باہر ایمبولینسوں کی قطار

ایمبولینسوں میں موجود افراد اس قدر بیمار تھے کہ قطار میں نہیں لگ سکتے تھے (فوٹو: اے ایف پی)

ایک60   سالہ شہری محمد عثمان اکبری نے کہا کہ وہ فوری طور پر پاکستان پہنچنے کی کوشش کر رہے تھے کیونکہ افغانستان کے خستہ حال ہسپتال ان کے دل کی سرجری مکمل کرنے سے قاصر ہیں۔
انہوں نے ایک سٹنٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’ڈاکٹروں نے میرے دل میں سپرنگز ڈال دیے ہیں، انہیں ہٹانے کی ضرورت ہے اور یہ یہاں ممکن نہیں ہے۔‘
قریب ہی ایمبولینسیں بھی کھڑی تھیں جن میں موجود افراد اس قدر بیمار تھے کہ قطار میں نہیں لگ سکتے تھے۔
وہاں کھڑی ایک ایمبولینس کے ڈرائیور مسلم فخری نے اپنی گاڑی کے اندر سٹریچر پر پڑے 43 سالہ شخص کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’مریض کو دل کا مسئلہ ہے۔‘
اس نے وضاحت کی کہ پاسپورٹ حاصل کرنے کے لیے درخواست دہندہ کا موجود ہونا ضروری ہے۔
’ہمارے پاس پاسپورٹ ہے اور ہم بھاگ سکتے ہیں‘

ایک خاتون مرسل رسولی نے کہا کہ وہ پاسپورٹ جاری ہونے کی خبر سن کر خوش ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

اس سے قبل طالبان نے اقتدار میں واپسی کے فوراً بعد ہی پاسپورٹ جاری کرنا بند کر دیا تھا۔
بعد ازاں اکتوبر میں حکام نے کابل میں پاسپورٹ آفس کو دوبارہ کھولا تو درخواستوں کی کثرت کی وجہ سے بائیو میٹرک آلات خراب ہو گئے۔
لیکن پاسپورٹ آفس نے ہفتے کے روز کہا کہ یہ مسئلہ حل ہو گیا ہے اور جن کی درخواستیں پہلے ہی زیرِعمل تھیں وہ اب اپنی دستاویزات حاصل کر سکتے ہیں۔
 وہاں موجود 26سالہ مرسل رسولی نے کہا کہ وہ یہ خبر سن کر خوش ہیں۔ انہوں نے اپنی دو سالہ بیٹی بی بی حوا کو سخت سردی میں گلے لگاتے ہوئے اے ایف پی کو بتایا کہ ’یہاں کی صورتحال پرامن نہیں ہے۔اگر صورتحال اس سے زیادہ خراب ہوتی ہے، تو ہمارے پاس پاسپورٹ ہے اور ہم بھاگ سکتے ہیں۔‘
’فنکار سب سے زیادہ کمزور ہیں‘
ایک مقامی موسیقار امید نصیر جنہوں نے چمڑے کی جیکٹ پہنی ہوئی تھی،وہ بھی ملک چھوڑنے کے لیے بے چین تھے۔
انہوں نے کہا کہ ’کئی ماہ سے، جب سے طالبان (اقتدار میں) آئے ہیں، ہمارے پاس کوئی کام نہیں ہے۔ فنکار سب سے زیادہ کمزور ہیں، لیکن کسی کو پروا نہیں ہے۔‘

شیئر: