Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’ریکو ڈک کی ترقی کے لیے اخراجات وفاقی حکومت اُٹھائے گی‘

وزیراعظم کا کہنا ہے کہ ’یہ فیصلہ بلوچستان کے عوام کے لیے خوش حالی کے ایک نئے دور کی نوید ثابت ہوگا‘ (فائل فوٹو: پی ایم آفس)
وزیراعظم عمران خان نے اعلان کیا ہے کہ وفاقی حکومت بلوچستان میں ریکو ڈک منصوبے کی ترقی پر اٹھنے والے تمام اخراجات کا بوجھ وفاقی حکومت اٹھائے گی۔  
وزیراعظم عمران خان کی جانب سے اس کا اعلان بدھ کی رات ٹوئٹر پر کیا گیا۔
اپنے بیان میں وزیراعظم کا کہنا تھا کہ چھوٹے صوبوں کی تعمیروترقی سے متعلق حکومتی ویژن کی روشنی میں میں نے فیصلہ کیا ہے کہ حکومتِ بلوچستان کی ایما پر ریکو ڈک کی ترقی پر اٹھنے والے تمام اخراجات وفاقی حکومت برداشت کرے گی۔
’یہ (فیصلہ) صوبہ بلوچستان اور اس کے عوام کے لیے خوش حالی کے ایک نئے دور کی نوید ثابت ہوگا۔
وزیراعظم عمران خان کا یہ بیان بلوچستان اسمبلی کے ان کیمرا اجلاس کے دو دن بعد سامنے آیا ہے۔
 پیر کو ہونے والے اس اجلاس میں ایڈیشنل اٹارنی جنرل اور وفاقی اداروں کے نمائندوں نے سونے اور تانبے کے اربوں ڈالر کے ذخائر کے ریکو ڈک منصوبے سے متعلق عالمی عدالت کے فیصلے اور نئے مجوزہ معاہدے پر بریفنگ دی تھی۔ 
بلوچستان کی کئی سیاسی جماعتوں اور وکلا تنظیموں نے ریکو ڈک منصوبے پر وفاق کے مجوزہ کنٹرول کی مخالفت کی ہے اور کہا ہے کہ معدنیات سے متعلق فیصلے کا اختیار آئین و قوانین کے تحت صوبے کے پاس ہے۔ 
تاہم دوسری جانب وزیراعلٰی بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو نے ریکوڈک منصوبے کے حوالے سے وزیراعظم عمران خان کے اعلان کا خیرمقدم کیا ہے۔
اپنے ٹوئٹر بیان میں ان کا کہنا تھا کہ ’وزیراعظم کی جانب سے ریکو ڈک منصوبے میں بلوچستان کا مالی بوجھ اٹھانے کا اعلان تاریخی ہے۔‘
’ہم اس اہم پیش رفت پر وزیراعظم عمران خان کے مشکور ہیں۔یہ فیصلہ بلوچستان کے عوام کے لیے امن، خوش حالی اور استحکام کا آغاز ثابت ہوگا۔‘
بلوچستان کے ضلع چاغی کے علاقے ریکو ڈک میں واقع سونے اور تانبے کے یہ ذخائر پاکستان ہی نہیں دنیا کے بڑے ذخائر میں سے ایک ہیں۔ اس پر ملٹی نیشنل ٹھیتیان کاپر کمپنی اور بلوچستان حکومت کا گذشتہ ایک دہائی سے تنازع چلا آرہا ہے۔
سنہ 1993 میں کیے گئے معاہدے کو پاکستان کی سپریم کورٹ کی جانب سے کالعدم قرار دیے جانے اور 220 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کے باوجود کان کنی کے لیے لائسنس کی درخواست رد کرنے پر کمپنی نے ورلڈ بینک کے سرمایہ کاری سے متعلق عالمی ثالثی عدالت سے رجوع کیا تھا جس پر  پاکستانی حکومت پر تقریباً چھ ارب ڈالر کا جرمانہ عائد ہے۔
بلوچستان اسمبلی میں پی ٹی آئی کے پارلیمانی لیڈر سردار یار محمد رند نے اردو نیوز کو بتایا تھا کہ ان کیمرا بریفنگ میں اسمبلی ارکان کو آگاہ کیا گیا کہ عالمی بینک کے فیصلے کے تحت پاکستان کو چھ نہیں بلکہ مجموعی طور 14 ارب ڈالر کا جرمانہ ادا کرنا پڑے گا جن میں سے 10 ارب ڈالر وفاقی حکومت اور چار ارب ڈالر صوبائی حکومت کو ادا کرنا ہوں گے۔ 

 

شیئر: