Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

قازقستان میں بدامنی کے پیچھے وسطی ایشیا، افغانستان کے جنگجو تھے: صدر

قازقستان میں مظاہروں میں ڈیڑھ سو سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
قازقستان کے صدر قاسم جومارت توکایف نے کہا ہے کہ ملک میں ہونے والے  پرتشدد تاریخی واقعات میں وسطی ایشیا، افغانستان اور مشرق وسطیٰ سے آئے ہوئے عسکریت پسند ملوث تھے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق پیر کو صدر قاسم جومارت توکایف نے یورپی کونسل کے صدر چارلز مچل سے ٹیلی فونک رابطے میں کہا کہ ’بلاشبہ یہ دہشت گردانہ حملہ تھا۔‘
قازقستان کے صدر کے دفتر سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ بہت ہی منظم حملہ تھا جس میں وسطی ایشیا، افغانستان اور مشرق وسطیٰ سے تعلق رکھنے والے غیر ملکی جنگجو ملوث تھے۔
خیال رہے کہ قازقستان میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف احتجاج اور مظاہروں کے دوران تشدد سے اہلکاروں سمیت ڈیڑھ سو سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔
صدر قاسم جومارت توکایف نے الزام عائد کیا کہ عسکریت پسندوں نے اقتدار پر قبضے کی کوشش کی غرض سے افراتفری برپا کی۔
دوسری جانب روسی وزیر خارجہ سرگئی لاروف نے اپنے چینی ہم منصب وانگ یی سے قازقستان کی صورتحال پر بات چیت کرتے ہوئے ملک میں امن کی بحالی کے لیے حکام کو مکمل حمایت کی یقین دہانی کرائی۔
روسی وزارت خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ دونوں وزرا نے بیرونی طاقتوں کی مداخلت پر بھی تشویش کا اظہار کیا۔
بیان کے مطابق وزرا نے شہریوں اور قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں پر حملوں، سرکاری اداروں اور دیگر سہولیات پر قبضے میں غیر ملکیوں کے ملوث ہونے پر بھی تشویش کا اظہار کیا۔

 قازقستان میں سی ایس ٹی او تنظیم نے فوجی دستے تعینات کیے ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)

قازقستان کی حکومت اور روس بغیر کوئی ثبوت فراہم کیے کافی مرتبہ بیرونی طاقتوں کو ملک میں بدامنی کا ذمہ دار ٹھہرا چکے ہیں۔
یورپی کونسل کے صدر چارلز مچل کے ساتھ گفتگو میں صدر قاسم جومارت توکایف نے مظاہروں کے دوران ہونے والے معاشی نقصان کا تخمینہ دو سے تین ارب ڈالر کے درمیان لگایا ہے۔
قازقستان کے صدر کی درخواست پر اجتماعی سکیورٹی کی تنظیم (سی ایس ٹی او) نے قزاقستان میں فوجیوں کی تعیناتی سمیت ملٹری سازو سامان بھی پہنچا دیا ہے.
انہوں نے یورپی کونسل کے صدر کو بتایا کہ سی ایس ٹی او کے فوجی دستے قزاقستان میں صرف سٹراٹیجک تنصیبات کی حفاظت پر مامور ہیں جو حالات کے مکمل مستحکم ہونے تک قزاقستان میں ہی موجود رہیں گے۔
ایک کروڑ 90 لاکھ آبادی پر مشتمل ملک میں شدید احتجاج اس وقت شروع ہوا جب نئے سال کے موقع پر مائع پیٹرولیم گیس (ایل پی جی) کی قیمتوں میں اضافہ سامنے آیا تھا۔ قازقستان میں زیادہ تر گاڑیوں میں ایل پی جی ہی استعمال ہوتی ہے۔
قیمتوں میں اضافے کے بعد الماتی اور مغربی صوبے مینگیتاؤ میں ہزاروں لوگ سڑکوں پر نکل آئے۔
احتجاج کرنے والوں کا کہنا ہے کہ تیل اور گیس برآمد کرنے والے ملک میں توانائی کے وسیع ذخائر کے ہوتے ہوئے قیمتوں میں اضافہ غیر منصفانہ ہے۔

شیئر: