Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ن لیگ اور پی پی پی کی قربتیں، کیا تحریک عدم اعتماد آنے والی ہے؟

مسلم لیگ ن کے رہنما احسن اقبال کے مطابق وزیراعظم کو ہٹانے کے لیے کسی بھی ہاتھ ملا سکتے ہیں۔ (فائل فوٹو: ٹوئٹر)
پاکستان کی قومی اسمبلی میں حزب اختلاف کی جماعتوں میں ایک بار پھر قربتیں بڑھنے لگی ہیں۔ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے پلیٹ فارم سے الگ ہونے والی پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی قیادت ایک بار پھر باہم میل ملاقاتوں میں مصروف ہو چکی ہے۔ 
اپوزیشن جماعتوں کے پارلیمانی پارٹیوں کے مشترکہ اجلاس کے بعد شہباز شریف اور بلاول بھٹو زرداری کی ملاقات، لیگی رہنما شیخ روحیل اصغر کے روایتی عشائیے میں بلاول بھٹو زرداری کی اچانک آمد اور لیگی رہنماوں سے بے تکلفی اور سابق صدر آصف زرداری کی جانب سے ن لیگ کو تنقید کا نشانہ بنائے جانے کا سلسلہ رک جانے کے بعد اپوزیشن اتحاد میں یکسوئی کا عنصر واضح دکھائی دینے لگا ہے۔
پارلیمانی راہداریوں میں ان ملاقاتوں کی بنیاد پر یہ چہ مگوئیاں کی جا رہی ہیں کہ اپوزیشن اتحاد تحریک عدم اعتماد لانے کی تیاریاں کر رہا ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما بھی ان ملاقاتوں کو اہمیت دیتے ہیں۔ ان کا موقف ہے کہ پارلیمان کی حد تک یکساں جدوجہد پر اتفاق ہو چکا ہے اور قیادت مل کر ان ہاؤس تبدیلی کا لائحہ عمل طے کرے گی۔ 
اس حوالے سے پاکستان مسلم لیگ ن کے جنرل سیکریٹری احسن اقبال نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ن لیگ اور پیپلز پارٹی ایوان میں حکومت کے خلاف یکساں موقف رکھتے ہیں۔ تحریک عدم اعتماد کے معاملے پر بھی باہمی بات چیت جاری ہے۔ عمران خان کو ہٹانے کے لیے ہم کسی سے بھی ہاتھ ملانے کو تیار ہیں۔‘  
مسلم لیگ ن کے پارلیمانی لیڈر خواجہ آصف نے کہا کہ ’اپوزیشن جماعتوں کے قائدین ان ہاؤس تبدیلی پر فیصلہ کریں گے۔ آئینی طریقہ یہی ہے کہ پارلیمنٹ قائم رہے اور ان ہاؤس تبدیلی لائی جائے۔ حکومت اعتماد کھو چکی ہے پارلیمنٹ کے اندر ہی تبدیلی لائی جائے گی اور کوئی غیر آئینی اقدام نہیں اٹھایا جائے گا۔‘ 
ان کا کہنا تھا کہ ’آئین میں ان ہاؤس تبدیلی کا آپشن موجود ہے۔ پیپلزپارٹی سمیت اپوزیشن کا پارلیمنٹ میں مثالی اتحاد ہے۔ ان ہاؤس تبدیلی سے متعلق جلد متفقہ فیصلہ ہوگا۔‘

عمران خان کو اقتدار سے الگ کرنے کے سب سے بڑے حامی مولانا فضل الرحمان ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)

اپوزیشن کے ایک رہنما نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’اپوزیشن قیادت حالات کا جائزہ لے رہی ہے اور جوں ہی حالات سازگار ہوں گے تحریک عدم اعتماد آ جائے گی اور کامیاب بھی ہوگی۔
جب ان سے سوال کیا گیا کہ سازگار حالات کیا ہوتے ہیں تو انہوں نے جواب دیا کہ ’صحافی کو تو پتہ ہوتا ہے کہ سازگار حالات کسے کہتے ہیں، یعنی جب گرین سگنل مل جائے تب حالات سازگار ہو جاتے ہیں۔‘
اس حوالے سے پاکستان پیپلز پارٹی کا موقف بھی ن لیگ سے مختلف نہیں ہے۔ پیپلز پارٹی کی رکن اسمبلی نفیسہ شاہ نے اردو نیوز سے گفتگو میں کہا کہ ’پی ڈی ایم سے نکلنے کے باوجود پیپلز پارٹی کا پارلیمنٹ کے فلور پر ن لیگ کے ساتھ رویہ ایک اتحادی کا ہی رہا ہے۔ دونوں جماعتوں کے پاس ایک دوسرے کا ساتھ دینے کے علاوہ کوئی آپشن موجود نہیں ہے۔ یقیناً سب کی خواہش ہے کہ عمران خان کو اقتدار سے الگ کیا جائے کیونکہ ان کی موجودگی ملک کے لیے نقصان دہ ہے اور ان سے ملک چلایا بھی نہیں جا رہا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’تحریک عدم اعتماد ہو یا پھر ان ہاؤس تبدیلی، یہ آپشنز موجود ہیں اور قیادت ہی فیصلہ کرے گی کہ ان آپشنز کا استعمال کب کرنا ہے۔‘
تاہم انھوں نے تصدیق کی کہ ’دونوں بڑی جماعتیں اس معاملے پر غور و خوض میں مصروف ہیں۔‘

یکم نومبر 1989 کو محترمہ بے نظیر بھٹو کے خلاف تحریک عدم اعتماد ناکام ہوئی۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

عمران خان کو اقتدار سے الگ کرنے کے سب سے بڑے حامی مولانا فضل الرحمان ہیں اور پارلیمان میں اپوزیشن جماعتوں کو دوبارہ متحد کرنے بھی مولانا کے کردار کا بار بار ذکر آ رہا ہے۔
اس حوالے سے جے یو آئی کا کہنا ہے کہ مولانا نے ہمیشہ اپوزیشن اتحاد کو جوڑنے میں کردار ادا کیا ہے اور اب بھی کہیں نہ کہیں ان کی رہنمائی موجود ضرور ہے۔ 
جے یو آئی کے رہنما حافظ حمد اللہ کے مطابق ’ناجائز حکومت کے خاتمے کے لیے ہر کوشش کا نہ صرف ساتھ دیں گے بلکہ اس میں قائدانہ کردار ادا کرنے کو تیار ہیں۔
اپوزیشن کی چھوٹی جماعتیں پہلے ہی پارلیمنٹ کے اندر قائد حزب اختلاف شہباز شریف اور بلاول بھٹو زرداری کے ہر متفقہ فیصلے کی حمایت کا اعلان کر چکی ہیں۔ 
خیال رہے کہ گذشتہ سال سینیٹ انتخابات کے دوران قومی اسمبلی میں اسلام آباد سے حفیظ شیخ کی شکست کے بعد وزیراعظم عمران کان نے رضا کارانہ طور پر قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لیا تھا۔ وہ قومی اسمبلی سے رضا کارانہ طور پر اعتماد کا ووٹ لینے والے دوسرے وزیراعظم ہیں۔
ان سے قبل نواز شریف نے 1993 میں سپریم کورٹ سے بحالی کے بعد ایوان سے رضاکارانہ اعتماد کا ووٹ لیا تھا۔ 
پارلیمانی تاریخ میں دو وزرائے اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد آئی جو ناکام ہوئی۔
یکم نومبر 1989 کو محترمہ بے نظیر بھٹو کے خلاف تحریک عدم اعتماد 12 ووٹوں سے ناکام ہوئی اور اگست 2006 میں شوکت عزیز کے خلاف تحریک عدم اعتماد بھی ناکام رہی تھی۔

شیئر: