Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

غیر ملکی فنڈنگ کیس، مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی فرنٹ فُٹ پر آگئیں

مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی دونوں نے فارن فنڈنگ کیس پر تحریک انصاف کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا (فائل فوٹو: پی ٹی آئی)
پاکستان کا سیاسی موسم سردیوں میں بھی ایک بار پھر گرم ہوگیا ہے اور اس بار اس کی وجہ بنی ہے الیکشن کمیشن کی وہ رپورٹ جس میں حکمراں جماعت تحریک انصاف پر اپنے بینک اکاؤنٹس چھپانے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔   
اپوزیشن کی دو بڑی سیاسی جماعتوں پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے مرکزی اجلاس جمعرات کے روز لاہور میں منعقد ہوئے۔ پیپلز پارٹی کی مرکزی مجلس عاملہ کے اجلاس کی صدارت چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کی۔   
دوسری طرف مسلم لیگ ن کے مرکزی دفتر میں پارٹی قائد نواز شریف نے لندن سے ویڈیو لنک کے ذریعے اجلاس کی صدارت کی۔ پارٹی صدر شہباز شریف اور پنجاب میں اپوزیشن لیڈر حمزہ شہباز بھی ویڈیو لنک  کے ذریعے اجلاس میں شریک ہوئے۔ مریم نواز اور دیگر قیادت بھی اجلاس میں موجود تھی۔  
ان اجلاسوں کے اختتام پر دونوں جماعتوں کی جانب سے نیوز کانفرنسز کا اعلان کیا گیا۔ پیپلز پارٹی کے میڈیا سیل نے نیوز کانفرنس کا وقت پانچ بجے دیا تو اس کے تھوڑی دیر بعد مسلم لیگ ن کی طرف سے مریم نواز نے ٹویٹ کردیا کہ وہ ساڑھے چار بجے نیوز کانفرنس کریں گی۔
تاہم مریم نواز لگ بھگ ساڑھے پانچ بجے میڈیا کے سامنے آئیں تو بلاول بھٹو نے بھی اپنی پریس کانفرنس مزید لیٹ کردی۔  
مریم نواز کی نیوز کانفرنس کا اکثریتی حصہ الیکشن کمیشن کی سکروٹنی کمیٹی کی رپورٹ کے گرد رہا۔ انہوں نے وزیراعظم عمران خان سے استعفے کا مطالبہ کردیا۔  
دلچسپ بات یہ ہے کہ اس نیوز کانفرنس سے پہلے ہونے والے اجلاس میں ایک قرارداد منظور کی گئی جس میں ملک کو درپیش تمام چیلنجز پر جماعت کا موقف سامنے رکھا گیا، صرف ایک پیرا گراف میں الیکشن کمیشن کی رپورٹ کا تذکرہ تھا۔  
تاہم نیوز کانفرنس میں مریم نواز کا سارا فوکس یہ رپورٹ ہی رہی۔  

پیپلز پارٹی نے پی ڈی ایم کے لانگ مارچ سے قبل کراچی سے احتجاجی تحریک کا اعلان کردیا (فائل فوٹو: اے ایف پی)

دوسری طرف پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی نیوز کانفرنس میں تمام موضوعات کو یکساں وقت دیا گیا چاہے وہ مہنگائی ہو، انتخابات کا جلد انعقاد یا الیکشن کمیشن کی رپورٹ، حتیٰ کہ انہوں نے مسئلہ کشمیر کو بھی اُجاگر کیا۔  
دونوں رہنماؤں نے صحافیوں کے سوالوں کے جوابات بھی دیے۔ بلاول بھٹو زرداری کی نیوز کانفرنس جو کہ مریم نواز کی پریس کانفرنس کے تقریباً 15 منٹ بعد شروع ہوئی وہ زیادہ دیر تک جاری رہی۔  
سیاسی تجزیہ کاروں کے نزدیک اپوزیشن کی دونوں سرگرمیوں میں مواد ایک ہی طرح کا تھا۔ اگر مریم نواز نے وزیراعظم کے استعفے پر زور رکھا تو بلاول بھٹو نے بار بار جلد الیکشن کی بات کی۔  
سینیئر تجزیہ کار فہد حسین سمجھتے ہیں کہ ’اپوزیشن نے ایک جارحانہ موقف اختیار کیا اور اس کی توقع بھی کی جا رہی تھی۔‘
’البتہ دونوں طرف سے صحافیوں نے یہ سوال بار بار پوچھا کہ اپوزیشن کی آواز ایک پلیٹ فارم سے کیوں نہیں آرہی؟ تو اس کا کسی حد تک خاطر خواہ جواب بلاول نے دیا بھی کہ پی ڈی ایم نے جب مارچ میں لانگ مارچ کا اعلان کیا تو پیپلز پارٹی کو اعتماد میں نہیں لیا گیا۔‘

فہد حسین کا کہنا ہے کہ ’پیپلز پارٹی نے صحیح وقت پر اپنے پتے کھیلے ہیں، اب پی ڈی ایم بھی اپنی حکمت عملی کو تبدیل کرے گی‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی) 

’اسی لیے پیپلز پارٹی نے بھی فروری کے مہینے میں مارچ کا اعلان کردیا ہے اور بلاول بھٹو زرداری کا بھی یہ کہنا تھا کہ ہم ضروری نہیں سمجھتے کہ ہمیں زیادہ انتظار کرنا چاہیے اس حکومت کو گھر بھیجنے میں۔‘
فہد حسین کا کہنا ہے کہ ’مجھے لگتا ہے کہ پیپلز پارٹی نے بھی صحیح وقت پر اپنے پتے کھیلے ہیں، اب پی ڈی ایم بھی اپنی حکمت عملی کو تبدیل کرے گی۔‘  
سیاسی تجزیہ کار مجیب الرحمان شامی کے مطابق تمام سیاسی جماعتوں کو حق حاصل ہے کہ تحریک انصاف کے خلاف آںے والی سکروٹنی کمیٹی کی رپورٹ سے سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں۔
’سیاست ایسے ہی چلتی ہے۔ جب مسلم لیگ ن یا پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کے خلاف مقدمات بنائے جاتے ہیں اور حکمراں جماعت میڈیا پر ان کی تشہیر کرتی ہے تو وہ بھی ان مقدموں سے سیاسی فائدہ ہی حاصل کرتی ہے۔‘   
انہوں نے مزید کہا کہ ’میں سمجھتا ہوں کی اس طرح سر جوڑنا ابھی قبل از وقت ہے۔ کیوں کہ ابھی الیکشن کمیشن کی حتمی رپورٹ آنا باقی ہے۔ کمیشن کے فیصلے کے بعد پتا چلے گا کہ سیاسی جماعتیں یک زبان ہو کر اس پر کیا کہتی ہیں۔‘

سینیئر تجزیہ کار مجیب الرحمان شامی کے مطابق ’الیکشن کمیشن کے حتمی فیصلے کے بعد پتا چلے گا کہ سیاسی جماعتیں یک زبان ہو کر کیا کہتی ہیں‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

’ابھی کچھ بھی کیا جانا کوئی اتنی بڑی بات نہیں ہوگی۔ حتیٰ کہ آج اگر وہ کچھ مطالبات بھی کرتے ہیں تو وہ کوئی بڑے مطالبے نہیں ہوں گے یا ان کا اثر بڑا نہیں ہوگا۔‘   
مجیب الرحمان شامی کہتے ہیں کہ ’اس رپورٹ کے بعد اور خاص طور پر منی بجٹ کے بعد مہنگائی کی نئی لہر نے سیاسی جماعتوں کو موضوعات تو بہرحال دے دیے ہیں لیکن میں فوری طور پر کوئی بڑی تبدیلی نہیں دیکھ رہا۔‘ 

شیئر: