Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مجھے مسلمان ہونے کی وجہ سے وزارت سے الگ کیا گیا: برطانوی رکن پارلیمنٹ

نصرت غنی نے یہ بھی بتایا کہ انہیں کہا گیا تھا کہ وہ پارٹی کے ساتھ ’وفادار‘ نہیں ہیں۔ (فوٹو: شٹر سٹاک)
برطانیہ کی کنزرویٹو پارٹی کی ایک رکن پارلیمنٹ نصرت غنی نے دعویٰ کیا ہے کہ ان کا مسلم عقیدہ ’ان کے ساتھی ارکان پارلیمنٹ کے لیے بے چینی کا سبب بنا۔‘
برطانوی اخبار ڈیلی میل کے مطابق نصرت غنی نے یہ بات ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے ’دی ٹائمز ‘ کو بتائی جب ان سے پوچھا گیا کہ انہیں وزارت سے کیوں ہٹایا گیا تھا۔
49 سالہ نصرت غنی نے ’دی ٹائمز‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت انہوں نے’ خود کو انتہائی کمزور اور تذلیل کا شکار‘ محسوس کیا۔
‘یہ ایسے ہی تھا جیسے کسی نے میرے پیٹ میں گھونسہ مارا ہو۔‘
ان الزامات کے بعد کنزرویٹو پارٹی کے چیف وہپ مارک سپنسر نے ٹوئٹر کے ذریعے جواب دینے کی کوشش کی اور یہ تأثر دیا کہ نصرت غنی جس شخص پر الزام لگا رہی ہیں، وہ وہی ہیں۔
مارک سپنسر نے کہا کہ انہوں نے ’کبھی بھی ایسے الفاظ استعمال نہیں کیے۔‘
واضح رہے کہ نصرت غنی کو فروری 2020 میں وزیر ٹرانسپورٹ کے عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا۔ انہوں نے الزام عائد کیا ہے کہ ’انہیں کنزرویٹو پارٹی کے وہپ نے بتایا کہ ان کے مسلمان ہونے کی وجہ سے مسئلہ پیدا ہوا۔‘
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق برطانیہ کے وزیراعظم بورس جانسن کے دفتر کا موقف ہے کہ وزیراعظم کو ان الزامات کے بارے میں علم تھا اور انہوں نے رکن پارلمنٹ نصرت غنی کو باقاعدہ شکایت کرنے کے لیے بلایا بھی تھا۔

’نصرت غنی کی وزیراعظم جانسن سے ملاقات بھی ہوئی‘

ٹین ڈاؤننگ سٹریٹ کے ترجمان نے کہا کہ ’ان انتہائی سنگین نوعیت کے دعوؤں کے بعد وزیراعظم کی نصرت غنی سے ملاقات بھی ہوئی تھی۔‘

’وزیراعظم نے انہیں باقاعدہ طور شکایت درج کرانے کے لیے کہا تھا لیکن نصرت غنی نے فوری طور پر ایسا نہیں کیا۔ کنزویٹو پارٹی کسی بھی قسم کے تعصب اور امتیازی سلوک کو برداشت نہیں کرتی۔‘
دوسری جانب کنزرویٹو پارٹی کے وہپ کے ترجمان نے بھی نصرت غںی کے الزامات کو ’مکمل طور پر غیر حقیقی‘ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’وزارتیں محنت کے نتیجے میں میرٹ پر دی جاتی ہیں۔ کنزرویٹو پارٹی میں کسی قسم کی نسل پرستی اور امتیازی سلوک کی گنجائش نہیں ہے۔‘
یاد رہے کہ نصرت غنی کنزرویٹو پارٹی کی جانب سے 2015 میں رکن پارلیمنٹ منتخب ہونے والی پہلی مسلمان خاتون تھیں۔ انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ انہیں خبردار کیا گیا تھا کہ اگر انہوں نے اسلاموفوبیا کے مسئلے کو اجاگر کرنا جاری رکھا تو ان کا ’کیریئر اور  ساکھ برباد ہو جائے گی۔‘
نصرت غنی نے یہ بھی بتایا کہ انہیں کہا گیا تھا کہ وہ پارٹی کے ساتھ ’وفادار‘ نہیں ہیں کیونکہ وہ پارٹی پر اسلاموفوبیا کے الزامات کا دفاع نہیں کر رہی ہیں۔

شیئر: