Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

برطانیہ کے سکولوں میں بڑھتے اسلاموفوبیا سے اساتذہ پریشان

اسلامو فوبیا کے علاوہ 90 فیصد اساتذہ کا دعویٰ ہے کہ انہیں سازشی مفروضوں کا سامنا کرنا پڑا (فائل فوٹو: اے ایف پی)
برطانیہ میں تین چوتھائی اساتذہ اپنے شاگردوں کے ہاتھوں اسلاموفوبیا پر مبنی رویوں کا سامنا کر چکے ہیں۔
عرب نیوز کے مطابق یونیورسٹی کالج لندن کے انسٹی ٹیوٹ آف ایجوکیشن نے 96 ٹیچرز پر تحقیق کی ہے جس کے مطابق انٹرنیٹ کی وجہ سے اسلاموفوبیا کے رجحان میں اضافہ ہوا، اور اساتذہ کے پاس اس سے نمٹنے کے ذرائع اور تربیت بھی نہیں ہے۔
تحقیق کے مطابق سکولوں کے اس رجحان سے نمٹنے کے طریقے مختلف ہیں۔ بہت سے اساتذہ نے شکایت کی کہ انہوں نے غلطی ہو جانے کے خدشے سے انتہا پسندی کے مسئلے پر بات نہیں کی۔
سکولوں میں انسداد انتہا پسندی کے ماہر کمال حنیف نے کہا کہ ’یہ ہم سب کو خبردار کرنے کے لیے کافی ہے۔ ہمیں یہ بات یقینی بنانی ہے کہ ہر طالب علم کو علم ہو کہ انتہا پسندی پر مبنی نظریات اور اعتقاد کوکیسے رد کرنا ہے۔‘
’ہم جانتے ہیں کہ اس وقت آن لائن اور ذاتی طور پر انتہا پسند نوجوانوں کو نفرت اور تشدد کی طرف مائل کر رہے ہیں۔ ہمیں تعلیم کی طاقت کو استعمال کرنا چاہیے۔‘
سینٹر فار ٹیچرز اینڈ ٹیچنگ ریسرچ کے ڈاکٹر بیکی ٹیلر کا کہنا تھا کہ ’یہ رپورٹ ظاہر کرتی ہے کہ بعض سکول تشدد، انتہا پسندی کے حوالے سطحی انتظامات کر رہے ہیں، تاہم اس میں کوئی شک نہیں کہ سکول اس میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔‘
اسلامو فوبیا کے علاوہ 90 فیصد اساتذہ کا دعویٰ ہے کہ انہیں سازشی مفروضوں کا سامنا کرنا پڑا اور تقریباً سب نے کہا کہ ’انہیں طلبہ میں نسل پرستی دکھائی دی۔‘
کین مکالیم نے جولائی میں کہا تھا کہ ’ایم آئی فائیو کے کاؤنٹر ٹیرر کیس ورک‘ میں انتہاپسند نوجوانوں کی تعداد بڑھ رہی ہے اور گذشتہ برس دہشت گردی کے حوالے سے ہونے والی گرفتاریوں میں 13 فیصد 18 برس سے کم نوجوان تھے۔ جبکہ 24 برس سے کم نوجوانوں کی تعداد 60 فیصد تھی۔‘

شیئر: