Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

وزیراعظم عمران خان کی کابینہ سے کون کب مستعفی ہوا؟

شہزاد اکبر کے استعفیٰ کے بعد سال 2022 کا آغاز بھی عمران خان کابینہ کے استعفوں سے ہوا (فوٹو: اے پی پی)
وزیراعظم عمران خان نے جب اقتدار سنبھالا تو ان کی کابینہ کے ارکان کی تعداد 21 تھی۔ جو اب بڑھتے بڑھتے نصف سینچری مکمل کر چکی ہے۔ اب تک ابتدائی کابینہ کے دو تہائی ارکان مستعفی ہوئے یا انھیں کابینہ سے نکالا جا چکا ہے جن میں سے کچھ کو دوبارہ کابینہ کا حصہ بھی بنا دیا گیا۔
وزیر اعظم کے مشیر برائے احتساب و داخلہ شہزاد اکبر کے استعفیٰ کے بعد سال 2022 کا آغاز بھی عمران خان کابینہ کے استعفوں سے ہوا ہے۔ ذرائع کے مطابق گزشتہ تین برسوں کی طرح اس سال بھی کابینہ میں مسلسل ردو بدل کا امکان بھی دکھائی دے رہا ہے اور بہت سے وزراء اپنی پسندیدہ وزارتوں پر نظریں جمائے بیٹھے ہیں۔  
خیال رہے کہ وزیراعظم اس سے قبل متعدد مرتبہ وفاقی کابینہ میں ردو بدل کر چکے ہیں۔ کچھ چہرے مستقل کابینہ کا حصہ ہیں اگرچہ ان کے قلمدان تبدیل ہوتے رہتے ہیں تاہم عمران خان کابینہ کے کئی ارکان جن میں وزراء، مشیران اور معاونین خصوصی مستعفی ہونے کے بعد اب کم و بیش گمنامی کی زندگی گزار رہے ہیں یا پارٹی کے کاموں میں مشغول ہیں۔

مستعفی کابینہ ارکان

عامر محمود کیانی

مستعفی ارکان میں قومی اسمبلی میں پاکستان تحریک انصاف کے رکن اور سابق وفاقی وزیر صحت عامر کیانی پہلے وزیر تھے جن سے استعفیٰ لیا گیا تھا جس کی وجہ ادویات کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ قرار دیا گیا۔

عامر کیانی پہلے وزیر تھے جن سے استعفیٰ لیا گیا تھا جس کی وجہ ادویات کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ قرار دیا گیا (فوٹو: اے پی پی)

اس وقت ان پر یہ الزام بھی سامنے ایا تھا کہ انھوں نے ادویہ ساز کمپنیوں کو فائدہ پہنچایا ہے۔ انھیں کابینہ میں واپس تو نہیں لیا گیا تاہم انھیں پارٹی کا مرکزی سیکرٹری جنرل بنایا گیا۔
وہ چند روز قبل تک اس عہدے پر براجمان تھے تاہم خیبر پختونخوا میں بلدیاتی انتخابات میں شکست کے بعد تنظیم تحلیل ہونے کے بعد انھیں اس عہدے سے بھی ہاتھ دھونے پڑے۔   

عاصم سلیم باجوہ  

مسلح افواج کے سابق ترجمان سی پیک اتھارٹی کے چیئرمین لیفٹیننٹ جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ کو وزیراعظم عمران خان نے اپنا معاون خصوصی برائے اطلاعات مقرر کیا تھا۔

لیفٹیننٹ جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ نے  خاندان کے بارے میں خبریں سامنے آنے کے بعد انھوں نے وزیراعظم کو استعفیٰ کی پیشکش کی تھی (فوٹو: ٹوئٹر)

ان کے خاندان کے بارے میں خبریں سامنے آنے کے بعد انھوں نے وزیراعظم کو استعفیٰ کی پیشکش کرتے ہوئے اپنے خلاف شائع ہونے والی خبر سے متعلق وضاحت کی تھی جس پر وزیر اعظم نے اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے ان کا استعفیٰ منظور نہیں کیا تھا۔ 
تاہم اپوزیشن جماعتوں اور سوشل میڈیا پر ان پر تنقید کا سلسلہ نہ رک سکا جس کے بعد وہ اپنے عہدے سے مستعفی ہو گئے۔ 

زلفی بخاری  

وزیراعظم عمران خان کے معاون خصوصی برائے اوورسیز پاکستانیز زلفی بخاری راولپنڈی رنگ روڈ سکینڈل میں اپنا نام آنے کے بعد اپنے عہدے سے مستعفی ہو گئے تھے۔  
نئی تحقیقاتی رپورٹ میں ان کا نام شامل نہیں تھا لیکن اس کےباوجود وہ کابینہ کا دوبارہ حصہ نہیں بن سکے۔ تاہم وہ پارٹی کے معاملات اور اوورسیز کے مسائل کے حوالے سے میڈیا میں اپنی موجودگی کا احساس دلاتے رہتے ہیں۔  

ندیم افضل چن  

ندیم افضل چن کا شمار ان افراد میں ہوتا تھا جنھیں وزیراعظم عمران خان بہت اہمیت دیتے تھے۔ لیکن ندیم افضل چن معاون خصوصی اور وزیر اعظم کا ترجمان ہونے کے باوجود بعض معاملات پر حکومتی موقف کو درست قرار دینے کے بجائے اس کے خلاف بات کر دیتے تھے۔  

زلفی بخاری راولپنڈی رنگ روڈ سکینڈل میں اپنا نام آنے کے بعد اپنے عہدے سے مستعفی ہو گئے تھے (فوٹو: اے پی پی)

ندیم افضل چن نے وزیراعظم کی جانب سے ہزارہ سانحہ کے وقت کوئٹہ نہ جانے کے فیصلے سے اختلاف کیا تھا جس پر وزیراعظم نے ایک اجلاس میں کہا کہ جس کو حکومتی پالیسیوں سے اتفاق نہیں وہ مستعفی ہو جائے۔ اس پر ندیم افضل چن استعفیٰ دے کر حکومت سے علیحدہ ہوگئے۔  

ندیم بابر  

ندیم بابر وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے پٹرولیم تھے۔ گزشتہ سال ملک میں پٹرولیم بحران کے بعد انھیں صورت حال کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا جس کی وجہ سے وزیراعظم نے انھیں مستعفی ہونے کا کہہ دیا تھا۔  

افتخار درانی 

وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے میڈیا افتخار درانی میڈیا سے متعلق وزیر اعظم کے تمام معاملات سنبھالتے تھے تاہم گزشتہ سال مبینہ طور پر ان پر بدعنوانی کے الزامات سامنے آئے جس کے بعد انہوں نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ 

ڈاکٹر ظفر مرزا، تانیہ ایدروس 

وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا اور ڈیجیٹل پاکستان کے حوالے سے معاون خصوصی تانیہ ایدروس دوہری شہریت کے حامل معاونین خصوصی تھے۔ اس بنا پر ان دونوں کو سخت تنقید کا سامنا تھا۔ اس تنقید سے تنگ آکر دونوں نے اپنے عہدوں سے استعفی دے دیا تھا۔ 

اسد عمر کو وزیراعظم نے وزارت منصوبہ بندی کا قلمدان سونپ کر دوبارہ کابینہ کا حصہ بنا لیا تھا (فوٹو: اے پی پی)

وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے خزانہ محصولات ڈاکٹر وقار مسعود، معاون خصوصی برائے خوراک جمشید اقبال چیمہ، معاون خصوصی برائے توانائی و پیٹرولیم تابش گوہر اور معاون خصوصی یوسف بیگ مرزا بھی مستعفی ہونے والے اراکین میں شامل ہیں۔
وزراء جنھیں دوبارہ کابینہ کا حصہ بنایا گیا:

اعظم سواتی 

وفاقی وزیر برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی سینیٹر اعظم سواتی اس وقت وفاقی کابینہ سے علیحدہ ہوئے جب ان کے فارم ہاؤس پر پیش آنے والے واقعے کے بعد تنازع کھڑا ہوا۔
ایک غریب خاندان پر پرچہ کروانے کے حوالے سے جے آئی ٹی نے انھیں اختیارات کے ناجائز استعمال کا مرتکب قرار دے کر سپریم کورٹ میں رپورٹ پیش کی تو وہ مستعفی ہوگئے۔ تاہم بعد ازاں انھیں دوبارہ کابینہ کا حصہ بناتے ہوئے وزارت ریلوے کا قلمدان دیا گیا۔ 

اسد عمر 

اسد عمر جنھیں وزیر اعظم عمران خان کی ٹیم کا ’اوپننگ بلے باز‘ کہا جاتا تھا ملک کے وزیر خزانہ تھے لیکن آئی ایم ایف پروگرام اور ملک کی معاشی صورت حال پر کاکردگی نہ دکھا سکے تو انھوں نے بھی وزارت سے استعفی دیا۔
کچھ ہی مہینوں بعد وزیراعظم نے انھیں وزارت منصوبہ بندی کا قلمدان سونپ کر دوبارہ کابینہ کا حصہ بنا لیا۔ 

بابر اعوان  

وزیراعظم کے مشیر برائے پارلیمانی امور نندی پور سکینڈل کی تحقیقات کے دوران بابر اعوان نے اپنے عہدے سے اس وقت اس دیا جب احتساب عدالت میں ان کے خلاف ریفرنس زیر سماعت تھا۔

کیس کا فیصلہ آنے کے بعد وزیراعظم عمران خان نے بابر اعوان کو دوبارہ مشیر پارلیمانی امور کے عہدے پر تعینات کر دیا تھا (فوٹو: اے پی پی)

ان پر الزام تھا کہ انھوں نے پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں بحیثت وزیر قانون نندی پور پاور پلانٹ کی فائل روکے رکھی تھی جس کی وجہ سے منصوبے کی لاگت میں اضافہ ہوا تھا اور قومی خزانے کو نقصان پہنچا تھا۔ کیس کا فیصلہ آنے کے بعد وزیر اعظم عمران خان نے انہیں دوبارہ مشیر پارلیمانی امور کے عہدے پر تعینات کر دیا۔ 

فروغ نسیم  

فروغ نسیم اس کابینہ کے واحد وزیر ہیں جنھوں نے دو مرتبہ رضا کارانہ استعفیٰ دیا۔ سپریم کورٹ میں وفاقی حکومت کی نمائندگی اور کام ہو جانے کے بعد دوبارہ وزارت کا حلف اٹھا کر ذمہ داریاں سنبھال لیں۔  
وہ پہلی بار آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کے حوالے سے عدالت میں ہونے والی کارروائی کے دوران اپنے عہدے سے مستعفی ہوئے  تھے جبکہ دوسری بار سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائر عیسیٰ کے خلاف وفاق کی نمائندگی کرنے کے لیے انہوں نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دیا تھا۔ 

فردوس عاشق اعوان  

فردوس عاشق اعوان کو وزیر اعظم نے فواد چودھری سے وزارت اطلاعات کا قلمدان لے کر معاون خصوصی برائے اطلاعات مقرر کیا۔
وہ کچھ عرصے تک اس عہدے پر رہیں تاہم بعد ازاں وزیراعظم نے ان سے استعفیٰ طلب کر لیا۔  
فروس عاشق اعوان کو دوبارہ وفاقی کابینہ کا حصہ تو نہ بنایا گیا بلکہ پنجاب کابینہ میں بھی وزیر اعلیٰ کی معاون خصوصی اطلاعات تعینات کر دیا گیا۔ لیکن وہاں بھی زیادہ عرصہ نہ گزار سکیں اور انھیں عہدے سے ہٹا دیا گیا۔  

فردوس عاشق اعوان کو وزیر اعظم نے فواد چودھری سے وزارت اطلاعات کا قلمدان لے کر معاون خصوصی برائے اطلاعات مقرر کیا (فوٹو: پی آئی ڈی)

شہریار آفریدی  

شہریار آفریدی کو وزیر مملکت برائے داخلہ اور بعد ازاں وزیر مملکت برائے انسداد منشیات کا چارج دیا گیا لیکن وزیراعظم نے ان کی کارکردگی کو سامنے رکھتے ہوئے ان سے وزارت کا قلم دان واپس لے لیا۔
وہ ان دنوں کابینہ کا حصہ تو نہیں ہیں لیکن ان کے پاس پارلیمان کی کشمیر کمیٹی کی سربراہی ہے اور انہیں وزیر مملکت کا درجہ حاصل ہے۔  
وفاق کے علاوہ تحریک انصاف کی پنجاب اور خیبر پختونخوا کی کابینہ میں ہر دوسرے روز وزراء کو نکالنے اور کابینہ میں تبدیلی کی خبریں آنا اب معمول کا حصہ بن چکی ہیں۔

شیئر: