Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

شہزاد اکبر کے تین برس، احتسابی عمل میں کیا کچھ ہوتا رہا؟

شہزاد اکبر نیب کے ڈپٹی پروسیکیوٹر کی حیثیت سے بھی کام کرتے رہے ہیں (فائل فوٹو)
وزیر اعظم عمران خان کے مشیر برائے احتساب و داخلہ مرزا شہزاد اکبر اپنے عہدے سے مستعفی ہوگئے ہیں۔ اپنے دور میں وہ نہ صرف احتساب کے ’پوسٹر بوائے‘ کے طور پر سامنے آئے بلکہ وہ اپنے بیانات سے اپوزیشن رہنماؤں کے سخت ناقد رہے ہیں۔ 
ان کا آخری بیان یہ تھا کہ ’سال 2020 شہباز شریف کو سزا سنائے جانے کا سال ہے۔‘ تاہم وہ اپنے اس ’مشن‘ میں کامیاب ہوئے بغیر ہی عہدے سے الگ ہوگئے ہیں جس کے بعد کچھ حلقوں کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ وزیر اعظم احتسابی عمل کی سست روی کی وجہ سے ان سے خوش نہیں تھے۔
وزیر اطلاعات فواد چودھری نے اپنی ٹویٹ میں انھیں کچھ نئی ذمہ داریاں دینے کا اشارہ بھی دے دیا ہے۔ 
2018 میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت تشکیل پائی تو وزیر اعظم عمران خان نے ’این آر او نہیں دوں گا‘ اور ’کسی کو نہیں چھوڑوں گا‘ کے اعلان کے ساتھ سابق حکمرانوں کے احتساب کا نعرہ لگایا۔ 
اس مقصد کے لیے انھوں مرزا شہزاد اکبر کو احتساب کے لیے مشیر بنایا اور انھی کی سربراہی میں ایسٹ ریکوری یونٹ قائم کیا گیا۔ شہزاد اکبر کی سربراہی میں ایسٹ ریکوری یونٹ نے اندرون اور بیرون ملک ان اثاثہ جات کو ڈھونڈنے کا کام شروع کیا جو پاکستانیوں نے اپنے بجائے اپنے اہل خانہ یا کسی اور کے نام پر بنا رکھے تھے۔  
ایسٹ ریکوری یونٹ نے شہباز شریف سمیت متعدد افراد کے خلاف منی لانڈرنگ کے مبینہ ثبوت بھی جمع کیے اور نیب اور ایف آئی اے کو فراہم کیے۔ لیکن ایسٹ ریکوری یونٹ کسی کے خلاف کچھ بھی ثابت کرنے میں ناکام رہا ہے۔ 
ایسٹ ریکوری یونٹ نے ایک شکایت پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف تحقیقات کیں اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ایک ریفرنس سپریم جوڈیشل کونسل کو بھیجا تھا۔

ایسٹ ریکوری یونٹ نے جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف تحقیقات شروع کیں۔ فوٹو پی آئی ڈی

یہ ریفرنس صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کی طرف سے بھیجا گیا تھا جس میں یہ الزام عائد کیا گیا کہ فاضل جج نے 2011 اور 2015 کے دوران اپنی بیوی اور بچوں کے نام لندن میں تین جائیدادیں لیز پر حاصل کیں، جس کو انہوں نے اپنے گوشواروں میں ظاہر نہیں کیا۔  
جسٹس فائزعیسیٰ نے اس الزام کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ وہ ان جائیدادوں کے بلواسطہ یا بلا واسطہ طور پر بینیفشل اونر نہیں ہیں۔ قاضی فائز عیسیٰ نے ریفرنس کے خلاف سپریم کورٹ میں پٹیشن دائر کی۔ اپنی پٹیشن میں قاضی فائز عیسیٰ نے بیان کیا کہ طاقتور ریاستی عناصر کسی بھی صورت میں ان کو ان کے آئینی عہدے سے ہٹانا چاہتے ہیں۔ ان کا موقف تھا کہ صدر علوی نے ریفرنس دائر کرنے سے پہلے اپنی آزادانہ رائے قائم نہیں کی۔ 
سپریم کورٹ نے حکومتی ریفرنس کو غیر آئینی قرار دے کر مسترد کر دیا۔ اس دوران ایسٹ ریکوری یونٹ کے قیام اور اس کے کام کرنے کے طریقہ کار پر بھی تحفطات کا اظہار کیا گیا۔  
ایسٹ ریکوری یونٹ کی کاکردگی اس وقت بھی سوالیہ نشان بن گئی جب برطانوی کرائم ایجنسی اور پاکستان کے پراپرٹی ٹائیکون ملک ریاض کے درمیان تصفیے کے حل کے نتیجے میں برطانیہ نے حاصل ہونے والے 19 کروڑ پاؤنڈز کی رقم پاکستان کو منتقل کی۔
اس کی تصدیق خود شہزاد اکبر نے اردو نیوز سے گفتگو میں کی تھی لیکن چند روز بعد یہ خبر سامنے آئی کہ وہ رقم سپریم کورٹ میں ملک ریاض پر عائد جرمانے کی مد میں حکومت کی جانب سے ادا کر دی گئی ہے۔ جس پر کہا گیا کہ حکومت نے سرکار کے وسائل خرچ کرکے حاصل کی گئی رقم سے ملک ریاض کو فائدہ پہنچایا ہے۔

 شہزاد اکبر نے اپنے دور میں شہباز شریف پر سب سے زیادہ تنقید کی۔ فوٹو اے ایف پی

 شہزاد اکبر نے اپنے دور میں جس شخصیت کو سب سے زیادہ نشانے پر رکھا وہ شہباز شریف تھے جن کے بارے میں وہ کم و بیش ہر دوسرے ہفتے پریس کانفرنس کرتے اور ان کی مبینہ منی لانڈرنگ اور ٹیلی ٹرانسفر سے متعلق الزامات  عائد کرتے۔
ایک پریس کانفرنس میں انھوں نے شہباز شریف سے 18 سوالات کے جواب مانگے اور تقریباً ہر دوسری پریس کانفرنس میں ان کا ذکر کرتے تھے۔  
برطانوی عدالت میں میں نیشنل کرائم ایجنسی کی جانب سے شہباز شریف کے منجمند اثاثے بحال کرنے کا فیصلہ سامنے آیا تو شہزاد اکبر کو کافی سبکی کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ اثر اس فیصلے پر وضاحتیں دیتے رہتے تھے۔  
اسی طرح براڈ شیٹ کیس کے معاملے پر شہزاد اکبر کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا تاہم انھوں نے متعدد مرتبہ واضح کیا کہ موجودہ حکومت کا براڈ شیٹ کے ساتھ ورکنگ ریلیشن شپ نہیں ہے۔ براڈ شیٹ معاملہ پرویز مشرف دور کا تھا۔  
حال ہی میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ سرینا عیسیٰ نے نیب میں درخواست دائر کی ہے جس میں انھوں نے شہزاد اکبر اور وزیر قانون کے خلاف تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔ 

شہزاد اکبر کے مطابق حکومت کا براڈ شیٹ معاملے سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ فوٹو اے ایف پی

شہزاد اکبر کو قومی اسمبلی کے فلور پر اپوزیشن کی جانب سے ہمیشہ تلخ سوالات کا سامنا رہا۔ بالخصوص مسلم لیگ ن کی ترجمان اور رکن قومی اسمبلی مریم اورنگزیب ان سے ایسٹ ریکوری یونٹ کی کارکردگی سے متعلق سوالات کرتیں اور پھر دونوں رہنماؤں کے درمیان ایک دوسرے کے خلاف بیانات کا سلسلہ چل نکلتا۔  
آج سے ایک سال قبل شہزاد اکبر نے قومی اسمبلی کو بتایا تھا کہ ایسٹ ریکوری یونٹ پر4 کروڑ 70 لاکھ خرچ ہوئے، 339 ارب 30 کروڑ کی ریکوری کی گئی اور 318 ارب کے بیرون ملک اثاثوں کا سراغ لگایا۔  

شیئر: