Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کراچی بندر گاہ کی بندش، ’مزدورں کے گھروں میں فاقے ہوں گے‘

رحمت اللہ کا کہنا ہے کہ انتظامیہ کو چاہیے کہ اس معاملے کو جلد از جلد حل کرے (فوٹو کے پی ٹی)
کراچی میں پاکستان کی سب سے بڑی بندرگاہ منگل سے بند ہے اور اس کی بندش سے روزانہ کی اجرت پر کام کرنے والوں کے لیے مشکلات بڑھ گئی ہیں۔
رحمت اللہ کراچی کیماڑی کے رہائشی اور چار بچوں کے باپ ہیں۔ وہ گذشتہ 10 سال سے کراچی پورٹ پر مزدوری کررہے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ان کے گھر کا گزر بسر کراچی پورٹ پر جہاز کے لنگر انداز ہونے پر ہے۔ گذشتہ روز سے پورٹ پر کوئی جہاز لنگر انداز نہیں ہوا ہے۔
کل بھی وہ خالی ہاتھ ہی گھر لوٹے تھے اور آج بھی ایسا ہی لگ رہا ہے۔ ٹولیوں کی صورت میں ملنے والے کام میں ان کی باری نہ ہونے کی وجہ سے وہ دو روز قبل برتھ پر کام حاصل نہیں کرسکے تھے۔
کراچی بندر گاہ پر چینل بند ہونے سے ملکی و غیر ملکی جہازوں کی آمدورفت بند ہے. وزیراعظم کے معاون خصوصی جہاز رانی و بندرگاہ محمود مولوی اور احتجاج کرنے والے ماہی گیروں کے درمیان کل مذاکرات ناکام ہوگئے تھے، جبکہ مذاکرات کا دوسرا دور آج ہوگا۔
کراچی بندرگاہ کی تاریخ میں سب سے طویل دورانیے کے ہونے والے اس احتجاج سے کئی افراد کو مشکل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
جہاں ایک جانب پورٹ پر نئے جہاز لنگر انداز نہیں ہو پا رہے ہیں وہیں روز کی اجرت پر کام کرنے والے بھی پریشان ہیں۔
عنایت خان کراچی پورٹ پر کام کرتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ اس وقت ان کے پاس کام موجود ہے اور وہ برتھ پر سامان کی آف لوڈنگ کر رہے رہیں لیکن گذشتہ روز سے چینل بند ہے اور نئے جہاز لنگرانداز نہیں ہوسکے ہیں۔ باری باری میں کام کرنے والے مزدور پہلے ہی سرکار کے طے شدہ معاوضہ نہ ملنے کی وجہ سے پریشان ہیں ایسے میں اگر کام رک جائے گا تو مزدورں کے گھروں میں فاقے ہوں گے۔ انتظامیہ سے مطالبہ کیا ہے کہ ہڑتال کو جلد ختم کرایا جائے تاکہ ان کا روزگار بحال ہوسکے۔
عثمان غنی کراچی سٹی ریلوے کالونی کے رہائشی ہیں اور کلیئرنگ فاروڈنگ کا کام کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ چینل کی بندش کی وجہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ مال کی سپلائی تعطل کا شکار ہے۔ جہازوں کی آمدورفت کا ایک طریقہ کار ہے۔ جہاز کی آمد پر کنٹینرز آتے ہیں ان میں بیشتر ایسی پروڈکٹس ہوتی ہیں جن کو بروقت کلیئر کروانا ضروری ہوتا ہے۔ موجودہ صورت حال میں امپورٹ اور ایکسپورٹ دونوں کام متاثر ہوگئے ہیں۔ اور اگر صورت حال ایسی رہی اور جہاز لنگر انداز ہوئے بنا واپس چلے گئے تو مزید مشکلات ہوجائیں گی۔
کراچی پورٹ ٹرسٹ کی جانب سے اس معاملے پر کوئی موقف نہیں دیا جارہا۔  
صدر ایوان صنعت و تجارت کراچی محمد ادریس نے ماہی گیروں کی جانب سے کراچی پورٹ کے داخلی و خارجی چینل کو بلاک کرنے پر تشویس کا اظہار کرتی ہوئے کہا ہے کہ کل سے کراچی پورٹ کے راستے کو بلاک کردینے سے درآمدی، برآمدی سامان سے لدے کئی جہاز پھنس گئے ہیں۔

محمد ادریس کا کہنا ہے کہ ایک ماہ قبل بھی پورٹ کے مزدوروں نے کام چھوڑ دیا تھا (فوٹو اے ایف پی)

’تقریباً 10 کے قریب جہاز جو کراچی پورٹ پر لنگر انداز ہونے تھے وہ بندرگاہ کے حدود کے باہرکھڑے ہیں۔ اگر صورتحال شام تک اسی طرح برقرار رہی تو عین ممکن ہے کہ کئی جہاز پورٹ پر لنگرانداز ہوئے بنا ہی لوٹ جائیں۔‘
 انہوں نے مزید کہا کہ تاجر برادری اور معیشت کو ناقابل تلافی نقصانات ہو گا۔ وزیر برائے میری ٹائم افیئرز علی زیدی بگڑتی صورتحال کا فوری نوٹس لیں اور بندرگاہ کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو فوری طور پرکلیئر کرکے بین الاقوامی تجارت کو بحال کیا جائے۔
محمد ادریس کا کہنا ہے کہ ایک ماہ قبل بھی پورٹ کے مزدوروں نے کام چھوڑ دیا تھا، جس سے کافی نقصانات ہوئے تھے۔ معیشت پہلے ہی مشکلات سے دوچار ہے۔
دوسری جانب پاک ماہی گیر ویلفیئر ایسوسی ایشن کے رہنما علاوالدین ناکوا کے سربراہی میں ماہی گیرروں کے اجلاس کے بعد سمندر سے سینکڑوں لانچیں منوڑا کے قریب لنگر انداز ہوئیں۔
علاوالدین ناکوا کا کہنا ہے کہ 18 ویں ترمیم کا غلط فائدہ اٹھایا جا رہا ہے۔ اس کے لیے کورٹ جانا پڑا تو کورٹ بھی جائیں گے۔ سردار معین بلوچستان حکومت ظالمانہ قانون ختم کرے۔
بلوچستان کے ماہی گیربھائی سندھ آتے ہیں کراچی کے مارکیٹ میں مال فروخت کرتےہیں سندھ اور بلوچستان کے ماہی گیربھائی ہیں ، نفرت پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے. سندھ کے ماہی گیروں کو بے روزگاری سے بچایا جائے، سندھ کے ماہی گیروں سےبلوچستان میں غیرملکیوں جیسا سلوک بند کیا جائے.{
انہوں نے کہا کہ }ملک کی نوے ارب کی مچھلی ایکسپورٹ متاثر ہورہی ہے، اگر ہمیں بلوچستان کی حدودو میں نہیں جانے دیا جارہا تو ان کے ماہی گیروں کو بھی سندھ میں آنے سے روکا جائے. ماہی گیروں نے اجلاس میں متفقہ طور پر فیصلہ کیا ہے کہ مذاکرات کی کامیابی تک چینل پر احتجاج جاری رہے گا۔‘.
بلوچستان کے سمندری حدود میں شکار پر پابندی کے بعد سندھ کے ماہی گیر سراپا احتجاج ہیں۔ فشرمین تنظیموں کی جانب سے احتجاج پر تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے۔

مقامی ماہی گیر آصف بھٹی کے مطابق احتجاج کے باعث جہاں بحری جہازوں کا راستہ روکا گیا ہے (فوٹو اے ایف پی)

اسٹوفا کے بیٹرن چیف سرور صدیقی کا کہنا ہے کہ اس احتجاج سے ہمارا کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس سے ملک کا نقصان ہورہا ہے. یہ کام ٹھیک نہیں ہے۔ ماہی گیروں پر پابندی پر ہمیں بھی تحفظات ہیں، لیکن احتجاج کا یہ طریقہ کار درست نہیں ہے۔
 ایڈمنسٹریٹر فشر مینز کوآپریٹو سوسائٹی زاہد ابراہیم بھٹی کا کہنا ہے کہ احتجاجی ماہی گیر کراچی پورٹ کے چینل کو بلاک کرنے سے گریز کریں۔ غیرقانونی طریقہ اختیار کرنے والے کسی بھی شخص کی ادارہ فشر مینز کوآپریٹو سوسائٹی کوئی مدد نہیں کرے گا۔ کراچی کے ماہی گیر وں کوبلوچستان کی 12ناٹیکل مائل حدود کے باہر فشنگ میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ سمندری حدود کی حفاظت پر مامور تمام ادارے فشر مینز کوآپریٹو سوسائٹی اور ماہی گیروں کے ساتھ تعاون کر رہے ہیں۔ فشر مینز کوآپریٹو سوسائٹی بلوچستان حکومت اور تمام متعلقہ اداروں کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہے۔ ماہی گیروں کے مسائل کو حل کرنے کی کوشش جاری ہے۔
مقامی ماہی گیر آصف بھٹی کے مطابق احتجاج کے باعث جہاں بحری جہازوں کا راستہ روکا گیا ہے وہیں آج صبح سے مقامی ماہی گیروں کو جانے سے روکا جا رہا ہے۔
 ان کا کہنا ہے ’اس احتجاج سے چھوٹی لانچ والوں کا کوئی تعلق نہیں ہے لیکن انہیں بھی روکا جارہا ہے۔ یہ تشویش ناک بات ہے. ہم روز شکار کرتے ہیں تو ہمارا گھر کا چولہا جلتا ہے. انتظامیہ اس مسئلے کو ہنگامی بنیادوں پر حل کرنے کی کوشش کریں۔‘
وزیر اعظم کے مشیر محمود مولوی اور احتجاج کرنے والے ماہی گیروں کے درمیان مذاکرات کا دوسرا دور آج ہوگا۔ 
رحمت اللہ کا کہنا ہے کہ انتظامیہ کو چاہیے کہ اس معاملے کو جلد از جلد حل کرے تاکہ ان کا روزگار بحال ہوسکے۔ مہنگائی اور مشکل حالات میں پہلے ہی گزارا مشکل ہے ایسے میں اگر روزگار نہیں ملے گا تو گھر کا چولہا کیسے جلے گا۔

شیئر: