Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’عجیب سا ہے لیکن لکھا تو درست ہے‘ ، ڈیٹنگ ایپ کے اشتہارات پر بحث

2015 میں مسلم ڈیٹنگ ایپ کے طور پر بنائی جانے والی اپلیکیشن ’مُز میچ‘ کو رواں برس ’مُز‘ کے نام سے ری لانچ کیا گیا ہے (فوٹو: ٹوئٹر، ضیاالرحمان)
پاکستان کے صوبہ سندھ کے شہر کراچی کے مختلف علاقوں اور شاہراہوں پر ڈیٹنگ ایپ کے اشتہار آویزاں کیے گئے ہیں۔
اشتہار میں غیرشادی شدہ افراد کو متوجہ کرنے منفرد جملوں کا استعمال کیا ہے۔
ان اشتہارات پر سوشل میڈیا پر کافی بحث کی جا رہی ہے۔
دوسری جانب سندھ کی مذہبی سیاسی جماعت نے بھی اس اشتہار کی مخالفت کی ہے۔ 

اشتہارات کس نے لگائے؟

کراچی کے مختلف علاقوں میں’مُز‘ نامی ڈیٹنگ ایپ کی جانب سے سائن بورڈ نصب کیے گئے ان اشتہارات میں غیرروایتی جملے درج ہیں۔
اس حوالے سے اردو نیوز کو بھیجے گئے ایک بیان میں ڈیٹنگ ایپ کے بانی اور سی ای او شہزاد یونس کا کہنا تھا کہ ’میں برطانیہ میں مقیم ایک پاکستانی مسلم ہوں۔ میں نے ’مُز‘ (ڈیٹنگ ایپ) 10 سال پہلے بنائی تھی کیونکہ مجھے پتہ ہے کہ زندگی کے لیے مناسب ہمسفر ڈھونڈنا مشکل ہے۔
مُز ایپ کے سی ای او شہزاد یونس نے اس ایپ کو بنانے کا مقصد بیان کرتے ہوئے بتایا کہ ’پاکستانیوں کو ایک ایسی ایپ تک رسائی دی جائے جہاں وہ محفوظ طریقے سے اپنے لیے ہمسفر ڈھونڈ سکیں جو اسلامی اقدار کا احترام کرتے ہوں۔‘ 
شہزاد یونس کا کہنا تھا کہ ایسی ایپ نہ ہونے کی صورت میں نوجوان نسل مغربی متبادل ڈھونڈتی ہے۔ ان کی بنائی گئی ایپ کسی بھی قسم کے غیراخلاقی رویے کی حوصلہ افزائی نہیں کرتی۔
یاد رہے کہ سال 2015 میں مسلم ڈیٹنگ ایپ کے طور پر بنائی جانے والی اپلیکیشن ’مُز میچ‘ کو رواں برس ’مُز‘ کے نام سے ری لانچ کیا گیا ہے۔

یہ ایپ دیگ ڈیٹنگ ایپ کی طرز پر ہی بنائی گئی ہے (فوٹو: سکرین گریب)

یہ ایپ دیگ ڈیٹنگ ایپ کی طرز پر ہی بنائی گئی ہے۔ اس ایپ میں مسلمان صارفین کو ٹارگٹ کیا گیا ہے اور یہ 10 سے زائد زبانوں میں موجود ہے۔ 
اس ایپ کو بنانے والے شہزاد یونس نے دعویٰ کیا کہ ’پاکستان میں ہمارے چار لاکھ ممبرز ہیں اور اب تک اس ایپ کے ذریعے 4000 کامیاب شادیاں ہوچکی ہیں۔

ایپ پر اعتراض کیوں کیا جارہا ہے؟ 

 اس ایپ کی مارکیٹنگ کے لیے استعمال کیےجانے والے جملے بڑے پیمانے پر زیر بحث ہیں۔ اس قبل یہی جملے لندن سمیت دیگر مقامات پر بھی استعمال کیے جاچکے ہیں۔
ٹوئٹر صارفین بھی ان جملوں پر رائے کا اظہار کر رہے ہیں۔
صحافی ضیا الرحمان نے اپنے ٹویٹ لکھا کہ ’جماعت اسلامی نے اس ایپ کو بند کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔‘
انعم رضوی نے اپنے ٹویٹ میں ’ہیپی سنڈے‘ لکھ کر اس اشتہار کی تصویر لگائی ہے۔ 

اس ایپ کے اشتہارات پر اردو نیوز کی ٹیم نے شہریوں سے بات کی تو شہریوں نے اس پر ملے جلے ردعمل کا اظہار کیا۔ 
محمد بلال احمد کا کہنا تھا کہ ’سڑک کنارے لگا یہ اشتہار کچھ عجیب سا تو ہے لیکن لکھا تو درست ہے۔ کراچی میں اتنی آبادی ہے پھر بھی کئی لوگ ہیں جو اب تک کنوارے ہیں۔‘
شعیب بیگ کا کہنا تھا کہ ’اشتہار تو دلچسپ ہے لیکن ہماری سوسائٹی میں شاید ابھی ایسی ایپ کی گنجائش نہیں ہے۔ مارکیٹنگ کا طریقہ اچھا ہے لیکن ساتھ ساتھ یہ بھی دیکھنے کی ضرورت ہے کہ اسے استعمال کیسے کیا جائے۔‘
 ان کا کہنا تھا کہ ’میرے خیال سے اسے مذہبی رنگ نہ دیا جائے تو بہتر ہے۔‘ 
دوسری جانب جماعت اسلامی سندھ کے امیر محمد حسین محنتی نے اس ایپ کی شدید الفاظ مذمت کرتے ہوئے اسے آئین پاکستان کے خلاف قرار دیا ہے۔
انہوں نے انتظامیہ سے مطالبہ کیا ہے کہ اس ایپ پر پابندی لگائی جائے اور اس کے بینرز شہر بھر سے فوری طور پر ہٹائے جائیں۔

شیئر: