Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پی ٹی آئی کے مستعفی ارکان کی تنخواہیں بند، لاجز اور گاڑیاں اب بھی زیرِ استعمال

پی ٹی آئی نے 11 اپریل کو قومی اسمبلی سے مستعفی ہونے کا اعلان کیا تھا: فوٹو: اے پی پی
پاکستان کی سابق حکمران جماعت تحریک انصاف کے مستعفی ارکان قومی اسمبلی کو اپریل کے 20 دنوں اور مئی کے پورے مہینے کی تنخواہوں کی ادائیگی نہیں کی گئی۔
مستعفی ارکان بدستور پارلیمنٹ لاجز میں مقیم ہیں جبکہ قائمہ کمیٹیوں کے سربراہان میں سے اکثریت نے سرکاری گاڑیاں بھی واپس نہیں کیں۔
سوشل میڈیا پر یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ تحریک انصاف کے ارکان مستعفی تو ہو گئے ہیں تاہم وہ اپنے استعفوں کی تصدیق اس لیے نہیں کر رہے کیونکہ انہیں تنخواہیں اور مراعات مل رہی ہیں۔
اردو نیوز نے جب قومی اسمبلی سیکرٹریٹ سے رابطہ کیا تو حکام نے بتایا کہ ’تحریک انصاف کے مستعفی ارکان کو اپریل کے اختتام پر 11 روز کی تنخواہ اور اس دوران ہونے والے قومی اسمبلی اور قائمہ کمیٹیوں کے اجلاسوں میں شرکت کا معاوضہ بھی ادا کر دیا گیا تھا۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’مئی کے مہینے کی تنخواہ ادا نہیں کی گئی جبکہ اسمبلی اجلاسوں اور قائمہ کمیٹیوں کے اجلاسوں کا معاوضہ ویسے بھی شرکت سے مشروط ہے تو وہ اس کے حقدار تھے ہی نہیں۔‘
حکام نے بتایا ہے کہ اگر ارکان اپنے استعفے واپس لے لیتے ہیں یا سپیکر کی جانب سے ان کے استعفے مسترد کر دیے جاتے ہیں تو انہیں مئی کی تنخواہ بھی ادا کر دی جائے گی۔
ایک سوال کے جواب میں حکام کا کہنا تھا کہ ابھی تک تحریک انصاف کے ارکان ان تمام مراعات کے حقدار ہیں جو ایک رکن قومی اسمبلی کو قانون کے تحت حاصل ہیں۔
’سہولیات بالخصوص ٹریول واؤچرز یا دیگر سفری اخراجات جو انہیں ایڈوانس میں ادا کر دیے گئے ہیں وہ واپس کرنے کے پابند نہیں۔ اس لیے قومی اسمبلی سیکرٹریٹ ان کا حساب بھی نہیں رکھتا۔‘

پی ٹی آئی کے ارکان نے 2014 میں بھی قومی اسمبلی سے استعفے دیے تھے۔ فوٹو:اے ایف پی

حکام نے بتایا کہ پاکستان تحریک انصاف کے 15 سے زائد ارکان قائمہ کمیٹیوں کے چیئرمین تھے جو قانون کے مطابق ابھی تک اپنے عہدوں پر موجود ہیں۔
’ان میں سے آٹھ نے سرکاری گاڑیاں واپس کر دی ہیں جبکہ باقیوں نے گاڑیاں اور ڈرائیور بھی واپس نہیں کیے اور وہ اس گاڑی کو ملنے والا فیول بھی استعمال کر رہے ہیں۔‘
حکام کے بقول قائمہ کمیٹیوں کے ان چیئرمینوں نے گزشتہ ڈیڑھ ماہ سے اپنے دفتروں میں جا کر کوئی سرکاری کام انجام نہیں دیا۔
اردو نیوز کے رابطہ کرنے پر ڈپٹی سپیکر زاہد اکرم درانی نے بتایا کہ ’ابھی تک تحریک انصاف کے کسی رکن نے پارلیمنٹ لاجز میں الاٹ شدہ رہائش گاہیں خالی نہیں کیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’چونکہ سپیکر قومی اسمبلی نے ان ارکان کےٍ استعفوں کی فائلیں دوبارہ اوپن کی ہیں اس لیے انہیں مستعفی تصور نہیں کیا جا سکتا۔ اسی وجہ سے سپیکر آفس کی جانب سے انھیں کسی قسم کا نوٹس بھی جاری نہیں کیا گیا۔‘
ڈپٹی سپیکر زاہد اکرم درانی نے بتایا کہ ’استعفوں کی تصدیق کا عمل شروع  ہونے اور پورا پورا دن سپیکر کی جانب سے اپنے چیمبر میں انتظار کرنے کے باوجود مستعفی ارکان اپنے استعفوں کی تصدیق کے لیے نہیں آ رہے۔‘
انہوں نے کہا کہ مستعفی ارکان کو چاہیے کہ وہ آئیں، استعفوں کی تصدیق کریں اور سرکاری رہائش گاہیں اور دیگر مراعات سے دستبردار ہو جائیں۔
اردو نیوز کی جانب سے رابطہ کرنے پر پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اور سابق وفاقی وزیر سینیٹر شبلی فراز نے کہا کہ ’ارکان قومی اسمبلی کی تنخواہیں قومی اسمبلی سیکرٹریٹ اکاؤنٹس میں بھیجتا ہے۔ جب ارکان مستعفی ہو چکے ہیں تو سیکرٹریٹ کو ان کی تنخواہیں ٹرانسفر نہیں کرنی چاہییں۔‘

مستعفی ہونے کے باوجود پی ٹی آئی کے اراکین لاجز استعمال کر رہے ہیں۔ فوٹو: قومی اسمبلی

انہوں نے کہا کہ ’اسی طرح اگر قواعد میں مستعفی ہونے کے بعد جتنی مدت تک رہائش گاہ اور دیگر مراعات کے استعمال کی اجازت ہے، اگر ارکان اس کی خلاف ورزی کے مرتکب ہو رہے ہیں تو انہیں اپنی رہائش کے لیے متبادل انتظام کر لینا چاہیے۔‘
خیال رہے کہ تحریک انصاف کے ارکان نے 2014 کے دھرنے کے دوران جب استعفے دیے تھے تو اس وقت بھی کچھ عرصے بعد انہیں تین تین ماہ کی تنخواہیں ادا کی گئی تھیں۔
جب تنقید ہوئی کہ اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کیے بغیر تنخواہیں وصول کر لی ہیں تو ارکان کی اکثریت نے اپنی تنخواہیں شوکت خانم ہسپتال کو بطور عطیہ جمع کرا دی تھیں۔
قومی اسمبلی کے قواعد کے مطابق کوئی بھی رکن اسمبلی اس وقت تک ایوان کا حصہ اور مراعات کا حقدار ہوتا ہے جب تک سپیکر اس کا استعفیٰ منظور کر کے نوٹیفکیشن الیکشن کمیشن کو نہیں بھیج دیتا۔
جس تاریخ سے سپیکر متعلقہ رکن یا اراکین کا استعفیٰ منظور کریں گے، اس کے بعد اور استعفیٰ منظور ہونے کی تاریخ کے درمیانی عرصے میں ارکان کو تنخواہوں کی ادائیگی نہیں کی جاتی۔
خیال رہے کہ اس وقت ایک رکن قومی اسمبلی کو تنخواہ کی مد میں ایک لاکھ 68 ہزار روپے ملتے ہیں جبکہ قومی اسمبلی اور کمیٹی اجلاسوں میں شرکت سے ایک دن پہلے اور ایک دن بعد کا سفری الاؤنس الگ سے ہوتا ہے۔

شیئر: