Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

تحریک انصاف کے ارکان کے استعفے خود منظور کروں گا: قاسم سوری

شاہ محمود قریشی نے اجلاس کے دوران پی ٹی آئی کے ارکان کے مستعفی ہونے کا اعلان کیا (فوٹو: ٹوئٹر)
پاکستان کی قومی اسمبلی کے قائم مقام سپیکر قاسم سوری نے کہا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے مستعفی ارکان کے استعفے سپیکر آفس پہنچنا شروع ہو گئے ہیں، جن کی منظوری وہ خود دے کر الیکشن کمیشن کو بھیجیں گے۔  
دوسری جانب تحریک انصاف کے 20 منحرف ارکان نے مستعفی ہونے سے انکار دیا ہے۔  
اتوار کو پارلیمنٹ ہاؤس میں اردو نیوز کے ساتھ گفتگو میں قاسم سوری نے تصدیق کی کہ ’100 سے زائد استعفے میرے پاس پہنچ چکے ہیں اور باقی بھی پہنچ رہے ہیں۔ چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان کی ہدایت پر استعفے منظور کیے جائیں گے۔‘  
انھوں نے کہا کہ ’میں خود استعفے منظور کرکے الیکشن کمیشن کو بھجواؤں گا۔‘ 
اس سے قبل پاکستان تحریک انصاف کی پارلیمانی پارٹی کے سابق وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت ہونے والے اجلاس میں قومی اسمبلی سے استعفے دینے کا فیصلہ کیا گیا۔ 
اجلاس کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا ’جس آدمی پر 16 ارب کا ایک اور آٹھ ارب کی کرپشن کا دوسرا کیس ہو، اس آدمی کو بطور وزیراعظم سیلیکٹ یا الیکٹ کیا جائے تو اس سے بڑی ملک کی توہین کوئی اور نہیں ہو سکتی۔‘ 
پارٹی فیصلے کے تحت اسمبلی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے شاہ محمود قریشی نے استعفے دینے کا اعلان کیا اور کہا کہ وہ وزارت عظمیٰ کے انتخابی عمل کا بائیکاٹ کرتے ہیں۔  
پاکستان تحریک انصاف کے منحرف رکن نور عالم خان نے اردو نیوز کے ساتھ گفتگو میں کہا کہ ’ہم 20 لوگوں نے متفقہ فیصلہ کیا ہے کہ ہم استعفے نہیں دیں گے۔ ہم آج شاہ محمود قریشی کو ووٹ دینے کے لیے ایوان میں گئے تھے لیکن انھوں نے بائیکاٹ کر دیا، اب تو ان کا 63 اے بھی فارغ ہوگیا ہے۔‘  
قومی اسمبلی کے قواعد کے مطابق رول 43 کے تحت کوئی بھی رکن قومی اسمبلی آئین کے آرٹیکل 64کے تحت ہاتھ سے لکھا ہوا استعفیٰ سپیکر کے پاس جمع کرا سکتا ہے۔ اگر تو کوئی رکن خود استعفٰی جمع کرائے اور اپنے مستعفی ہونے کے بارے میں سپیکر آگاہ کرے اور سپیکر کو متعلقہ رکن پر مستعفی ہونے کے لیے کسی دباوؤکا علم نہ ہو تو وہ اس کا استعفیٰ قبول کرلے گا۔  

نور عالم خان کا کہنا تھا کہ انہوں نے شاہ محمود قریشی کو ووٹ دینا تھا مگر وہ بائیکاٹ کر چکے چلے گئے (فوٹو: ٹوئٹر، نور عالم)

اگر سپیکر کو کچھ معلومات ہوں کہ متعلقہ رکن کسی دباؤ میں استعفٰی دے رہا ہے تو وہ خود، اسمبلی سیکریٹریٹ یا کسی ایجنسی کے ذریعے معلومات حاصل کرکے اطمینان ہونے کے بعد استعفیٰ قبول کرتا ہے۔  
اگر استعفٰی متعلقہ رکن نے کسی اور ذریعے سے بھجوایا ہو تو بھی سپیکر معلومات حاصل کرنے اور متعلقہ رکن کو طلب کرکے یہ اطمینان کر لینے کے بعد کہ استعفٰی رضاکارانہ طور پر دیا گیا ہے تب ہی منظور ہوگا۔  
2014 میں بھی پاکستان تحریک انصاف کے 30 کے قریب ارکان نے اپنے استعفے جمع کروائے تھے تاہم اس وقت کے سپیکر سردار ایاز صادق نے ان کے استعفے منظور نہیں کیے تھے۔ اس وقت ایاز صادق نے کہا تھا کہ انھیں شک ہے کہ تحریک انصاف کی قیادت نے دباؤ ڈال کر اپنے ارکان کو مستعفی ہونے کا کہا ہے۔ اس لیے ارکان فرداً فرداً آ کر اپنے استعفے کی تصدیق کریں۔
تحریک انصاف کے تمام ارکان ایک ساتھ سپیکر آفس جاتے رہے لیکن سپیکر نے ایک ساتھ استعفوں کی تصدیق سے انکار کر دیا۔
بعد ازاں تحریک انصاف استعفے واپس لے کر ایوان کا حصہ بن گئی تھی۔  
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اب بھی تحریک انصاف کے ارکان مستعفی ہوئے ہیں تو کیا وہ اپنے استعفوں کی فرداً فرداً تصدیق کریں گے؟ اس حوالے سے پارلیمانی امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ’اس دفعہ صورت حال قدرے مختلف ہے۔ ایک تو ابھی تک سپیکر کا عہدہ تحریک انصاف کے قاسم سوری کے پاس ہے جن کی موجودگی میں استعفوں کا فیصلہ ہوا ہے۔ دوسرا جب ایوان میں شاہ محمود قریشی نے مستعفی ہونے کا اعلان کیا کہ تو تمام ارکان نے ان کے ساتھ کھڑے ہوکر اس اعلان کی تائید کی۔‘ 
ماہرین کا کہنا ہے کہ ’اگر قاسم سوری نئے سپیکر کے انتخاب سے پہلے استعفے منظور نہیں کرتے تو نیا سپیکر ارکان کو فرداً فرداً بلا کر تصدیق کرنے کا پابند ہے تاہم قاسم سوری اعلان کر چکے ہیں کہ وہ خود استعفے قبول کریں گے۔‘

شیئر: