Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اس سال تاریخ کا سب سے سستا اور باسہولت حج ہو گا: وزیر مذہبی امور

اس سال 81 ہزار دو سو سے زائد افراد پاکستان سے حج کے لیے جا رہے ہیں (فوٹو: اردو نیوز)
پاکستان کے وفاقی وزیر برائے مذہبی امور و ہم آہنگی مفتی عبدالشکور نے کہا ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں اتنا سستا اور باسہولت حج نہیں ہوا جتنا رواں سال کروایا جا رہا ہے جس کے لیے پہلی بار ڈیڑھ لاکھ روپے فی حاجی سبسڈی بھی دی گئی ہے۔
اسلام آباد میں اردو نیوز کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ گزشتہ حکومت کے طے کردہ معاہدوں اور ریٹس کے تحت حج 9 لاکھ 49 ہزار روپے میں ہوتا مگر ان کی کوششوں اور حکومت کی سبسڈی نے اسے کم کر کے چھ لاکھ 64 ہزار کا کر دیا ہے۔
حج پر دی جانے والی سبسڈی پر اعتراض کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ وہ دین کے عالم کے طور پر جانتے ہیں کہ سبسڈی جائز ہے اور ثابت شدہ بھی ہے۔ تمام حجاج کو ملنے والی سبسڈی کی مالیت چار ارب 80 کروڑ کے قریب ہے جبکہ پیٹرول پر ہر ماہ 103 ارب سبسڈی امیر و غریب کو ملتی رہی ہے اس پر کسی نے اعتراض نہیں کیا۔
یاد رہے کہ اس سال 81 ہزار دو سو سے زائد افراد پاکستان سے حج کے لیے جا رہے ہیں جن میں سے 32 ہزار سے زائد سرکاری سکیم کے تحت حج کریں گے جبکہ باقی افراد پرائیویٹ سکیم کے تحت حج کریں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’جب میں وزیر بنا تو پتا چلا کہ گزشتہ حکومت کے طے کردہ ریٹس کے تحت 9 لاکھ 49 ہزار روپے حج اخراجات ہوں گے جس پر میں بہت پریشان ہو گیا کہ شومئی قسمت میری وزارت میں ہی حج اتنا مہنگا ہو گا۔  لوگ کہیں گے آپ نے حج مہنگا کر دیا ہے۔‘
مفتی عبدالشکور نے بتایا کہ ’میں نے پارٹی سربراہ (مولانا فضل الرحمن) سے بات کی کہ حج اتنا مہنگا ہو گا۔ مولانا اس معاملے پر بہت حساس ہیں وہ بھی پریشان ہو گئے ہیں۔ انہوں نے کہا آپ نے ہر صورت حج کو سستا بنانا ہے میں نے ہاتھ پاؤں مارنا شروع کر دیے۔‘
وزیر مذہبی امور کا کہنا تھا کہ وہ مکہ اور مدینہ منورہ گئے اور ٹیم کے ساتھ مل کر اخراجات کم کیے اور باقی سب کام جو پہلی حکومت نے کیے تھے وہ ختم کیے جبکہ پرانے ریٹس سے مکہ اور مدینہ میں کمی کروائی۔
انہوں نے کہا کہ ’مکہ میں فی کس ہوٹل کرایہ 2600 ریال سے 3500 ریال تھا۔ میں نے کہا کہ اسے 2100 ریال سے آگے نہیں بڑھنا چاہیے اور اسی طرح مدینہ میں بھی ہوٹل کرایہ کم کروا کر 720 ریال فی کس کے حساب سے لیا۔‘
مذہبی امور کے وزیر نے کہا کہ ’جو مسجد نبوی کے بالکل قریب رہائش ہے، حاصل کی اور  ٹرانسپورٹ کے نرخ بھی 350 ریال سے 275 ریال پر کروائے جس کے بعد ان کی پارٹی کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے وزیراعظم سے بات کی اور کابینہ اور وزیراعظم کے تعاون سے ڈیڑھ لاکھ فی کس سبسڈی حاصل کی۔‘

وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ وہ دین کے عالم کے طور پر جانتے ہیں کہ سبسڈی جائز ہے۔ فوٹو: ایس پی اے

خواتین اور معذور افراد کے لیے سہولیات

وفاقی وزیر نے اردو نیوز کو بتایا کہ خواتین اور معذور افراد کے لیے حکومت نے حج کی سہولیات کا خصوصی اہتمام کیا ہے اور ’یہاں ہم نے ان کی تربیت کا ایک نظام بنایا ہے اور کمزور خواتین کے لیے وہیل چیئر کے انتظامات کیے ہیں تو اسی طرح ان کی جو بھی ضرورت ہو وہ ہم ان کو فراہم کرتے ہیں اور جو مشکل مرحلہ آتا ہے، اس کو حل کرنے کے لیے ہماری پوری ٹیم سعودی عرب میں بھی کوشاں ہو گی۔‘
انہوں نے بتایا کہ اسی طرح معذور افراد کی مدد کے لیے یہاں سے ہارڈ شپ کوٹے میں لوگ بھی بھیجے گئے ہیں۔

سعودی عرب میں پاکستان کی جانب سے دی گئی سہولیات

مفتی عبدالشکور کا کہنا تھا کہ حکومت سعودی عرب میں بھی پاکستانیوں کو مکمل سہولیات فراہم کرنے میں اپنی ذمہ داریاں ادا کر رہی ہے۔
’ہم سوشل میڈیا کے ذریعے حجاج کی باقاعدہ رہنمائی اور مدد کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ مستقل معاونین کی ڈیوٹیاں بھی لگا دی ہیں اور سٹاف بھی مقرر کیا ہے۔ وہاں پر کنٹرول آفس بھی قائم ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ مکہ اور مدینہ میں شعبہ گمشدگی اور بازیابی کے علاوہ ایک ہیلپ لائن ہے جس کے ذریعے حاجیوں اور معاونین کے درمیان رابطہ قائم کیا جا رہا ہے۔ اسی طرح شکایت کے لیے شعبے قائم کیے گئے ہیں۔
اس حوالے سے مکہ اور مدینہ میں دو بڑے ہسپتال بھی قائم کیے گئے ہیں اور ڈسپنسریاں بھی ہیں۔
وفاقی وزیر نے بتایا کہ وزارت کا عملہ حاجیوں کی تربیت بھی کرتا ہے تاکہ سعودی عرب میں وہ پاکستان کی عزت کا باعث بنیں اور مقامی قواعد کی پابندی کریں۔
’اگر ہماری سہولیات کی کمی ہو گی تو ملک کی بھی بدنامی ہو گی اس لیے ہم کوشش کر رہے ہیں کہ شکایت کا موقع نہ دیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’رہائش کے حوالے سے اچھے اور لگژری ہوٹل بک کیے گئے ہیں اور مجھے وہاں سے لوگ فون کرکے شکریہ ادا کر رہے ہیں۔ وہاں مانیٹرنگ کی ٹیم بھی بنا دی اور عملہ بھی بھیجا گیا ہے۔‘

پاکستانی عازمین حج کے لیے مکہ اور مدینہ میں دو بڑے ہسپتال بھی قائم کیے گئے ہیں۔ فائل فوٹو: روئٹرز

پرائیویٹ حج آپریٹرز کو وارننگ

وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ بطور حج ریگولیٹر وہ پرائیویٹ حج کروانے والی کمپنیوں پر بھی نظر رکھے ہوئے ہیں اور خود چند دن پہلے 800 کے قریب کمپنیوں کے مالکان اور ذمہ داران کے انٹرویو کرکے انہیں حاجیوں کو مکمل سہولیات فراہم کرنے کی ہدایت کی ہے۔
وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ ’پیکج کے مطابق سہولیات دینا حج کمپنیوں کے فرائض میں ہے اور ان کی نگرانی ہمارے فرائض میں ہے۔‘
مفتی عبدالشکور نے بتایا کہ ’اگر انہوں نے معاہدے کے مطابق سہولیات نہ دیں تو براہ راست وہاں بھی سزا دیں گے جرمانے کریں گے اور بلیک لسٹ بھی کر سکتے ہیں۔ اس پر میں کسی کو نہیں چھوڑوں گا اور کوئی رعایت نہیں کروں گا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’پرائیویٹ حج آپریٹرز نے عوام کے لیے باقاعدہ 12 پیکج بنائے ہیں۔ ہم نے ان سے کہا ہے کہ ہر بلڈنگ میں اپنے پیکج کو آویزاں کریں تاکہ حاجی کو معلوم ہو کہ یہ سہولیات اس کا حق ہیں۔‘
’تمام ایسے حاجیوں کو ایک فارم بھی وزارت کی جانب سے بنا کر دیا گیا ہے تاکہ وہ معلوم کریں کہ ان کو پیکج کے مطابق سہولت دی گئی ہیں یا نہیں۔ اگر کوئی شکایت آئی تو سزا ہو گی۔‘

خواتین کے لیے محرموں کو خصوصی ویزے

سعودی عرب میں حج کے لیے جانے والی 45 سال سے کم عمر خواتین کے لیے محرم کا ساتھ یقینی بنانے کے حوالے سے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ’یہ پہلے سے تعلیمات میں ہے کہ خواتین کے ساتھ محرم ہونا لازم ہے۔ ہم نے انتظام کیا تھا کہ خدانخواستہ ایسا ہو گیا کہ صرف خاتون کا نام قرعہ اندازی میں آ گیا مگر اس کے شوہر، بھائی یا باپ کا نام نہ آیا تو اس کا حل نکالا جائے۔ اس مقصد کے لیے خصوصی ہارڈشپ کوٹہ کے تحت ہم ایسی خواتین کے محرموں کو بھی حج کا ویزا جاری کرتے ہیں۔‘
وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ ہم حج کے حوالے سے سے سعودی قوانین کے پابند ہیں۔

اس سال 81 ہزار دو سو سے زائد افراد پاکستان سے حج کے لیے جا رہے ہیں۔ فائل فوٹو: ایس پی اے

معاونین سعودی قانون کے تحت ضروری، کوئی ذاتی ملازم شامل نہیں

 اس سال حج کے لیے جانے والے وزارت کے دو سو معاونین کے حوالے سے ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ہمیشہ سے ہی یہ وزرات مذہبی امور کا سٹاف ہوتا ہے۔
’اس لیے کہ وزارت مذہبی امور براہ راست حج کے حوالے سے جواب دہ ہے اور ہم دوسرے محکموں کو سزا بھی نہیں دے سکتے جبکہ مذہبی امور والوں کو سزا دے سکتے ہیں۔ اس لیے ہماری وزارت کے لوگ ہی اس ڈیوٹی پر بھیجے جاتے ہیں تاکہ ذمہ داری بھی لیں۔
ان کا کہنا تھا کہ پہلے تو زیادہ معاونین جاتے تھے جن کی تعداد تین چار سو ہوتی تھی مگر اس سال کوٹہ کم ہونے پر 200 افراد جائیں گے۔
وزیر مذہبی امور نے کہا کہ ’لوگوں نے مشہور کر دیا کہ میرے چار خانساماں گارڈز اور ڈرائیور جا رہے ہیں مگر میرا تو کوئی ذاتی ڈرائیور نہیں اپنی گاڑی خود چلاتا ہوں۔ اور کوئی ذاتی گن مین بھی نہیں۔‘
’یہ سب وزارت مذہبی امور کے ریگولر عملے کے لوگ ہیں وہ محکمانہ ضوابط کے تحت چھان بین کے ساتھ منتخب ہوئے ہیں۔ ان میں سے کسی کی بازیابی کی ڈیوٹی ہے کوئی حرم کا گائیڈ ہے کوئی بلڈنگ ڈیوٹی پر ہے۔‘
وفاقی وزیر کے مطابق یہ سعودی حکومت کی شرط ہے کہ ہر سو بندوں پر ایک بندہ معاون بھیجنا ہوتا ہے اور ہر ہزار حاجی پر ایک ڈاکٹر جاتا ہے۔ نہ صرف پاکستان بلکہ ساری دینا سے لوگ جاتے ہیں اور ہم سعودی ہدایات کے پابند ہیں۔
ایک اور سوال پر ان کا کہنا تھا کہ معاونین کو سمجھایا گیا ہے کہ اس سال ڈیوٹی ادا نہ کرنے والوں کو ڈی پورٹ کر دیا جائے گا۔ یہ لوگ حجاج کی خدمت کے لیے جاتے ہیں حج کے لیے نہیں جاتے۔

مذہبی امور کے وزیر نے بتایا کہ حج کرانے والے نجی کمپنیوں کی نگرانی کر رہے ہیں۔ فوٹو: اردو نیوز

ان کا کہنا تھا کہ ’ہم نے کوئی غیر قانونی کام کیا ہو تو نشاندہی کریں ہم قانون کے سامنے خود کو پیش کریں گے۔‘
یاد رہے کہ اس سال سرکاری سکیم کے تحت مدینہ منورہ پہنچنے والے عازمین حج کی رہائش کے لیے 19 رہائشی عمارتیں مرکزیہ میں حاصل کی گئی ہیں۔ ہر عمارت میں دو سو سے چھ سو تک عازمین کی رہائش کی گنجائش موجود ہے۔
تمام عمارتیں حرم کی حدود کے 300 میٹرز کے اندر اندر واقع ہیں۔ وزارت مذہبی امور کے مطابق رہائشی عمارتوں میں ایک فائیو سٹار جبکہ باقی فور اور تھری سٹارز  ہوٹلز ہیں۔
وزرات کے ترجمان کے مطابق رہائشی عمارتوں میں تین وقت کا کھانا اور ائیر کنڈیشنڈ کمرے اور جدید ترین لفٹوں کی سہولت کے ساتھ ساتھ رہنمائی کے لیے معاونین کی ایک بڑی تعداد 24 گھنٹے خدمت کے لیے موجود رہتی ہے جو عازمین کو حرم نبوی تک رہنمائی کے علاوہ  اور سعودی موبائل ایپ اعتمرنا کے استعمال میں حائل مسائل کے ضمن میں بھی گائیڈ کرنے کے فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔  
ترجمان نے مزید کہا کہ ’پاکستان ہاؤس مدینہ منورہ میں 15 سے 20 بستروں  پر مشتمل ہے ایک جدید مرکزی ہسپتال قائم کیا گیا ہے اس میں ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل سٹاف ڈیوٹی سر انجام دے رہے ہیں تاکہ حاجیوں کو کسی بھی شکایت پر مفت علاج معالجہ اور ادویات کی فراہمی یقینی بنائی جا سکے۔‘
ترجمان کا کہنا ہے کہ پاکستانی عازمین کے رہائشی علاقے کو 2 سیکٹرز میں تقسیم کیا گیا ہے جن میں کلینک قائم کیے گئے ہیں تاکہ عازمین کو کسی بھی طبی مسئلے کی صورت میں فوری علاج معالجہ کی سہولت فراہم کی جا سکے۔

شیئر: