Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

معراجِ مصطفیٰﷺ ، عروجِ انسانیت کیلئے مشعلِ راہ

رحمت للعالمین کا ملکوتِ ربانی کے مشاہدات کا مبارک سفر امتِ مسلمہ کیلئے متعدد دروس اور تشریعی احکام کا سر چشمہ ہے
* * * *ڈاکٹر سعید احمد عنایت اللہ ۔ مکہ مکرمہ* * *
لفظِ معراج لغت میں عروج وسر بلندی سے عبارت ہے۔ کوئی بلندی معنوی فکری مقام ومرتبہ اورمنصب میں ہوتی ہے یا بلندی مادّی ہوتی ہے کہ کوئی ثقیل جسم سمیت عالم سفلی سے عالم علوی میں پہنچا دیا جاتا ہے۔ جب پہنچانے والا قادرِ مطلق ہو تو پہنچنے والے کے پہنچ جانے میں کسی عقلمند کو اشکال نہیں رہنا چاہئے۔ جب رفعت روحانی ہو تو بندہ مرفوع الدرجات ہوتا ہے۔ کسی بندہ کی ذات بھی روحانی سربلندی کیساتھ ساتھ مادّی طور پر بلند مقام تک پہنچ جاتی ہے اور اسکا جسم بھی مرفوع ہوتا ہے۔ "رافع" اگر اللہ تعالیٰ ہو تو مرفوع ہونے والا کہاں تک پہنچ سکتا ہے۔معراج اسی درسِ پاک کا ایک مبارک صفحۂ بیضا ہے۔ معراجِ مصطفی اس ذاتِ گرامی کا ایک تشریعی سفر ہے جو تمام بنی نوع انسان کیلئے اسوۂ حسنہ ہے۔ اس کے مقام کا یہ تقاضا ہے کہ ملکوتِ ربانی کا اسکا یہ سفر کمالِ ذات کے ساتھ (جسم ورروح سمیت) ہو کہ وہ اسوہ ٔحسنہ انسانیت کیلئے عروج وسر بلندی کے سنگ میل نصب کرنے والا انسانِ کامل ہے۔ یہ اس ذات کا سفر ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں کئی مقامات پر لفظِ "عبد" کا اطلاق فرمایا ہے۔اسی معراج سے قبل مشرکینِ مکہ کے ایذا کے بارے میں سورہ "اقرا" نے اسی ذاتِ گرامی پر "عبد" کا اطلاق فرمایا: "کیا تو نے اسے دیکھا جو روکتا ہے "عبد" کو جب وہ نماز پڑھے۔" ظاہر ہے کہ "نمازِ عبد" روح وجسم سمیت ہوتی ہے، اسی طرح "دعوتِ عبد" کیلئے قیام بھی روح وجسم سمیت ہوتا ہے۔قرآن کریم نے اسی اسراء اور معراج کے بارے میں سورہ "اسراء میں بھی فرمایا: "وہ اللہ پاک ذات ہے جس نے اپنے بندے کو اسراء کرائی۔" جب اللہ تعالیٰ نے اسراء ومعراج کیلئے پوری انسانیت کے اسوۂ حسنہ اپنے کامل واکمل "عبد" جناب محمد رسول اللہ کو اختیار کیاتو اس تشریعی سفر پر وہ اسوہ ٔحسنہ اپنے جسم وروح سمیت کامل عبد کی صورت ہی میں گیا لہذا یاد رہے کہ معراج مصطفی کوئی عالمِ خیال یا عالمِ مثال کی حکایت نہیں،نہ ایسی حکایات اور قصہ گویاں ہمارے دین اور خیرِ امت کی خیر الشرائع کا مقصد ٹھہرتی ہیں بلکہ معراج مصطفی خیر البشر کی سیرت میں ذاتِ نبوی کو پیش آنے والا عالمِ وجود کا ایک حقیقی واقعہ ہے۔ یہ وہ عظیم الشان امر ہے جس سے امتِ مسلمہ کے کئی تشریعی امور وابستہ ہیں۔دینِ اسلام کے اصلاحی پروگرام کے ضابطے اور بنی نوع انسان کیلئے نصیحت وموعظت کے دروس اس میںپنہاں ہیں۔ سچ ہے کہ معراج مصطفی انسانیت کی سر بلندی کیلئے مشعلِ راہ ہے۔ اہلِ ایمان کا بلا شک وشبہ یقین ہے کہ تمام تر عزتیں اللہ تعالیٰ ہی کیلئے ہیں۔ ارشادِ باری تعالی ہے: "یقیناعزت تمام تر اللہ ہی کیلئے ہے۔" باری تعالیٰ کا یہ محکم فیصلہ ہے کہ عزت ورفعت اسکے رسول کیلئے ہے جسکا ارشاد ہے: "ہم نے تمہیں رفعتِ شان عطا کی۔" پھر اسکا ارشاد ہے: "رفعتوں کو اللہ تعالیٰ نے مؤمنین کیلئے رکھا ہے۔" خود اسکا مؤمنین کو خطاب ہے: "تمہیں سر بلند ہو، اگر مومن ہو۔" ،پھر اللہ تعالیٰ سے بڑھ کر کون سچا ہو سکتا ہے؟۔ یہ بھی یاد رہنا ضروری ہے کہ باری تعالیٰ کی سنت یہ ہے کہ وہ اپنے بندوں کو پرکھتا ہے، انہیں آزماتا ہے بلکہ اس کے ہاں تو خلقتِ موت وحیات کا فلسفہ ہی آزمائش پر مبنی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اس نے موت وحیات کا نظام ہی صرف تمہیں پرکھنے کیلئے بنایا۔" یہ بھی نہ بھولئے کہ رب العالمین کی راحت ونعمت دے کر بھی آزمائش ہوتی ہے اور محنت ومشقت میں ڈال کر بھی آزمائش ہوتی ہے۔ پھر آزمائش وابتلاء میں کامیاب کون ہے؟ وہی جو ہر حالت میں "استقامت" کے زیور سے آراستہ رہے، یعنی ناز ونعمت میں "استقامت" " منعم" کا شکر اسکی علامت قرار دی گئی۔ محنت ومشقت میں اسکی قضا پر رضا استقامت کی علامت بتائی گئی۔ قرآن کریم نے اہلِ استقامت کو فرشتوں کے ہم نشیں بتایا ہے۔ پھر باری تعالیٰ کی سنت یہ ہے کہ محنت ومشقت پر عطا وافر اور رفعت ہو "عسر" تنگی کے ساتھ "یسر" آسانی ہو۔ معراجِ مصطفی میں غور کیجئے کہ آپ کا جسم طاہر ومطہر،آپ کی روحِ مقدسہ دونوں عالمِ علوی اور ارضی کی سیر کرتے ہیں۔باری تعالیٰ جس کا "عبدہ" سے ذکر کرتا ہے "عبد" روح وجسم سے عبارت ہے۔
معراج پر لیجانے والی ذاتِ باری تعالیٰ ہے جو قوتِ قاہرہ اور قدرت مطلقہ کی مالک اور ہر عجز ونقص سے پاک ہے۔ فرمایا: "وہ ذاتِ گرامی پاک ہے جس نے اپنے بندہ کو اسراء کرایا۔" اپنے بندہ کو جو عبدیت میں اعلیٰ، افضل اور اکمل، ربانی ثبوت میں خاتم، رسالت الٰہی میں افضل، جو نبی الانبیاء ہے، اسے باری تعالیٰ کی طرف سے اسراء ومعراج سے کب مشرف کیا گیا؟ اس کی اسراء اور معراج کی مجموعی مساحت کیا تھی؟ اسمیں اسکی سواری کی سرعت کیا تھی؟ پھر اہم مشاہداتِ سفر کیا تھے؟یہ وہ امور ہیں جن کی تفصیل مکمل کرنے کیلئے مطولات درکار ہیں مگر ان محدود سطور میں ہم صرف اشارات پیش کرنے پر اکتفا کریں گے۔ یہ امر امت کیلئے باعثِ فخر اور باعثِ خیریت ہے کہ معراج مصطفی معراج انسان کیلئے مشعلِ راہ ہے جو ابتلا و آزمائش میں کامیابی کے بعد پیش کیا گیا کیونکہ اللہ تعالیٰ کی سنت ہے جسے نبی کریم نے یوں بیان فرما یا: ’’ سب سے بڑھ کر آزمائش میں انبیاء کو ڈالا جاتا ہے پھر جو ان کے جس قدر قریب ہوں۔‘‘ معراج مصطفی کو سمجھنے کی خاطر تمہید کے طور پر اس نکتہ کا ادراک ایمانی تقاضا ہے کہ کائناتِ ربّ العالمین جو کہ نہ صرف ہمارے عالم میں مشاہدہ میں آنے والے کرہ زمین وآسمان اور ان دونوں کے درمیانی عالموں تک محدود ہے بلکہ وہ دنیا سے ورا عالم آخرت میں بھی جملہ موجودات کو محیط ہے۔
پھر ان میں پیش آنیوالے واقعات وحوادث کچھ ایسے ہیں جو عام دستور کے مطابق وجود میں آتے ہیں یعنی اسباب ہوں پھر ان کے آثارونتائج اور مسببات کا وجود اور دیگر وہ واقعات وحقائق ہیں جو خرقِ عادت ہوں، عمومی دستور سے ماوراہوں۔ ہر دو امر خالقِ جلِ وعلا کی سنت ہیں۔ وہ اپنے عمومی دستور کے مطابق اسباب اور ان کے آثار و مسببات بھی پیدا کرنے والا ہے اور اس پر بھی قادر ہے کہ بعض خرقِ عادت امور بھی اسکی کائنات میں موجود ہوں۔ عمومی عادت تو یہی ہے کہ انسان کو ماں اور باپ کے ذریعہ جنم دے مگر خرقِ عادت یہ ہے کہ آدم کو اور حوا کو بلا ماں وباپ پیدا کرے پھرسیدنا عیسیٰ علیہ السلام کو بلا باپ کے خرقِ عادت کے طور پر پیدا کر دے۔ پھر عمومی عادت تو یہ ہے کہ آگ جلائے، پانی غرق کرے، ضربِ حجر سے پانی کے چشمے نہ پھوٹے، لاٹھی لاٹھی رہے، سانپ نہ ہو، مٹی کا پرندہ نہ اڑے مگر خرقِ عادت کے طور پر قادرِ مطلق آگ کو "برد وسلام" بنا دے، پانی کو شاہراہ قرار دے،مٹی کی مورتی کو اپنے حکم سے بغیر انسانی مشینری کے اڑائے۔ایک ایسی مملکت جیسی کہ اس سے قبل اور بعد کسی کو ملی، اُسکے پورے ثقیل وعریض تخت کا اڑان ہو، اسی طرح آسمان میں مستقر رہنے والا چاند زمین پر سے انگلی کے اشارے سے دو ٹکڑے ہو جائے، انسان کی انگلیاں میٹھے پانی کا چشمہ بن جائیں، الغرض ربّ العالمین کی کائنات میں موافقِ عادت امور اور خرقِ عادت امور دونوں اللہ تعالیٰ کی قدرت کے دائرہ میں ہیں۔ ہر دو کا ایجاد کرنا، انہیں وجود بخشنا،اللہ تعالیٰ کی قدرت سے باہر نہیں ،نہ اسکی سنت کے مخالف ہے۔
دونوں قسم کے امور عمومی دستور کے تحت وقوع پذیر ہونے والے یا خرقِ عادت دونوں واقعاتی حقائق ہوتے ہیں۔ معجزات وخوارق نہ اللہ تعالیٰ کی قدرت سے باہر ہیں نہ سنت اللہ کے خلاف ہیں۔ دونوں طرح کے امور اللہ تعالیٰ کی قدرت میں داخل ہیں اور اسکی سنت کے بھی موافق ہیں۔ ہماری اس تمہید کو سمجھنا جاننا اور پورے جزم ویقین سے بلا شک وریب ماننا یہی ایمان ہے۔ یہی مؤمن کا شیوہ وشعار ہے۔ ایسا عقیدہ رکھنا ایمان کا جزء لا ینفک ہے۔ معراج مصطفیکے بیان میں اولین درس امت کیلئے یہ ہے کہ وہ اس تمہید کو جزئِ ایمان بنائے پھر اس کا استحضار رکھے تاکہ مطالعۂ اسراء ومعراج کے بعد اسکی کیفیت صدیقی رہے،بوجھلی نہیں کیونکہ اس تمہید سے مؤمن تمام مظاہرِ عجیبہ وغریبہ کو وہ اس عالمِ ارضی کے ہوں یا عالم علوی کے اگر مخبرِ صادق نے خبر دی ہے تو انہیں واقعاتی حقائق مانے گا۔ معراج مصطفی کے مطالعہ کرنے والے کو اولاً ہماری اس تمہید میںغورکرنا ہوگا تاکہ اسراء ومعراج کے اول تا آخر واقعات اور مشاہداتِ مصطفی کے مطالعہ کا ثمرہ اسکے لئے ایمان ویقین میں زیادتی، رشد وہدایت میں پختگی، تزکیہ وطہارت میں ارتقائے روحانی ہو۔ معراج مصطفی کے باب میں اسکے قلب میں شکوک وشبہات اور اوہام واشکالات کی کوئی گنجائش نہ رہے۔ اللہ تعالیٰ کی سنت رہی ہے کہ اسکے ہاں خیر کثیر اور عطا ئے جزیل ابتلاوآزمائش اور محنت شاقہ کے بعد ملے۔ وہ یسر کو عسر کے ساتھ رکھے ہوئے ہے۔ یہ نبی خاتم ہیں، سید الرسل ہیں،حبیبِ رب العالمین ہیں، دعوتِ حق دیتے ہیں، وہ معاشرہ اور اس کے لوگ جن پر تمام عمر وہ احسان کرتے رہے ہیں، جیسا کہ ام المؤمنین حضرت خدیجہؓ نے پہلی وحی پر رسول اللہ کے احسانات اور اخلاق کی اعلیٰ اقدار کا نقشہ یوں کھینچاکہ آپ بوجھل کا بوجھ اٹھاتے ہیں، تنگدست کی مدد کرتے ہیں، نادار کو کمواتے ہیں، اجنبی کے میزبان بن جاتے ہیں، ناگہانی آفت پر مصیبت زدگاں کی امداد کیلئے سب سے پہلے پہنچتے ہیں۔تمام عمر صدق کو دامن سے وابستہ رکھا، تقویٰ وطہارت سے مزین رہے۔40برس تک کی سیرتِ طاہرہ ومطہرہ میں کوئی اشارہ نہیں کر سکتا۔ اب جب وہ اس دعوت کو پیش کرتے ہیں تو قریب ترین اور قبیلہ والے خود خاندانِ قریش فکری اور مادی ایذارسانی کی حد کر دیتے ہیں۔ جسے صادق وامین کا نام دے رکھا تھا، اُسی کی دعوت حق کے بعد معاذ اللہ ساحر وکاذب ومجنون تک کہتے ہیں۔ پھر اسکا اور اسکے خاندان کا حصار کرتے ہیں۔
اب حق کا یہ داعی اپنے شہر سے نکلتے اور دوسرے شہر کا رخ کرتے ہیں۔ وہاں پر رحمت للعالمین پر شدید سنگ باری کی جاتی ہے،اس پر نہ قریب والے نہ بعید والے، نہ ہی بستی والے، نہ ہی دوسری بستی والے رحم کھاتے ہیں۔آنحضرت نے فرمایا: ’’ مجھے دعوت حق میں ایسی ایذادی گئی کہ مجھ سے قبل کسی کو نہ دی گئی۔ ‘‘ جب مخلوق نے پیارے نبی پر ذہنی، فکری اور جسمانی ایذا رسانی کی انتہا کر دی تو ربِ رحمن ورحیم اسی محنت شاقہ کے بعد اسراء ومعراج کا عطیہ عطا فرمایا۔ امت کو یہ درس ہے کہ حق کی راہ میں آلام واحزان، محنت ومشقت رائیگاں نہیں جاتیں۔ہاں داعیٔ حق کی معراج اسی کے بعد ہے،شرط صرف حکمِ ربِ کائنات پر استقامت ہے۔ شکوہ وشکایت صرف باری تعالیٰ سے ہی ،مخلوق سے نہیںجیسا کہ صاحبِ معراج نے شبِ معراج سے قبل طائف سے واپسی پر تمام شکوے وشکایات راز داری سے ربِ ذوالجلال کے ادب کی پوری پاسداری ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے کی تھی۔ یہی معراج کا وارثانِ پیغمبر اور امت مسلماں کیلئے اولین درس ہے۔ عالم ارضی وسماوی اور ان کے ما بین مختلف طبقات کی یہ سیر اول تا آخر قادرِ مطلق کا معجزہ ہے۔ معجزہ جو خرقِ عادت ہوتا ہے، ہماری مذکورہ تمہید سے یہی غرض تھی کہ وہ امور جو باری تعالیٰ کے معجزات ہوں اور وہ اسکے انبیاء کے ہاتھوں پر ظاہر ہوں،وہ قادرِ مطلق کی قدرت میں داخل ہیں اور سنتِ ربانی کے عین مطابق ہوتے ہیں۔ گرچہ وہ عمومی دستور سے ہٹ کر ہوتے ہیں، تبھی انہیں شریعت کی زبان میں خرقِ عادت امر یا معجزہ کہا جاتا ہے۔
اگر صاحبِ عقلِ سلیم ہماری ان سطور میں غورکرکے مطالعہ کرے تو معجزاتِ انبیاء کی تصدیق میں اسے مزید علمی مباحث میں الجھنے کی ضرورت ہی نہ رہے گی۔ معراج مصطفی کا مطالعہ ہمیں یہی علمی وفکری درس دیتا ہے جو نہ صرف نبی خاتم کے معجزہ کو ماننا آسان کر دیتا ہے بلکہ وہ جملہ سابقین انبیاء کے تمام معجزات کے بارے میں قلوب میں انشراح اور ایمانی بصیرت میں نورِ معرفت میں اضافہ کر دینے والا امر ہے۔ آج کل بعض قلیل علم وفہم لوگوں کے قلوب میں جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے معجزات اور ان کی حیاتِ طویلہ کے بارے میں وساوس ہیں، ان تمام اوہام کا ازالہ بھی معراج مصطفی کے اسی درس میں موجود ہے۔روشنی کا مطالعہ کرنے والے خوب جانتے ہیں کہ ہم بفضل تعالیٰ حیاتِ عیسیٰ علیہ السلام کے موضوع کو کس قدر ایضاح وافصاح سے مسلسل طور پر بیان کر رہے ہیں۔ ان شاء اللہ معراج مصطفی، حیاتِ عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں ہمارے حلقات کو سمجھنے میں بھی معین ہوں گے۔ہم مکرر کہتے ہیں کہ نبی خاتم کے اسراء ومعراج کے مبارک سفر کا بیان اور اس قصہ کی حکایت برکات سے خالی نہیں مگر یہ بھی یاد رہے کہ یہ محض ایک معمول کا واقعہ نہیں ،نہ صرف ایک یاد رکھنے والا قصہ یا بیان کردینے والی کہانی ہی نہیں بلکہ رحمت للعالمین کا یہ ملکوتِ ربانی کے مشاہدات کا مبارک سفر امتِ مسلمہ کیلئے متعدد دروس اور تشریعی احکام کا سر چشمہ ہے۔ اس مبارک سفر میں مصطفی کے ہر قدم پر وہ کرہ ٔارضی پر پڑا ہو یا عالمِ علوی پر موعظت سے لبریز ہے۔ معراج مصطفی کے اس سبق کو ماہِ رجب کے ساتھ ساتھ خاص کر دینا پھر بھول جانا یقینانا قدر دانی ہوگی۔ یہ سچے عاشقانِ رسول اور مخلص محبین کا ہرگز شیوہ نہیں۔ موعظت اور رشد وہدایت اور وہ دروس عبرت جو اس مبارک سفر کا ثمرہ ہیںانہیں ایک ہی مجلس کے ساتھ خاص کر دینا، یقینا قلم اس سے قاصر ہے۔ یہ اس موضوع کے ساتھ نا انصافی ہے اور امت کی بھی حق تلفی ہے لہذا معراج مصطفی کے آغاز کی اس پہلی قسط کو تو ہم انہی سطور پر ختم کرتے ہیں اور باری تعالیٰ سے توفیقِ مزید کی دعا کرتے ہیں ۔

شیئر: