Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

داعش میں شامل ہونے والے پہلے سزایافتہ امریکی شہری کی قید میں کمی

محمد خویس کو دہشت گردوں کی سہولت کاری کے الزام میں سزا سنائی گئی تھی (فوٹو:اے پی)
داعش میں شامل ہونے پر سزا پانے والے پہلے امریکی شہری کی قید کی مدت 20 سال سے کم کر کے 14 سال کر دی گئی ہے۔
خبر رساں ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق محمد خویس کو 2017 میں دہشت گردوں میں سہولت کاری کے علاوہ ہتھیاروں سے متعلق الزام میں سزا سنائی گئی تھی۔
محمد خویس نے دسمبر 2015 میں عراق اور شام میں داعش کے زیر کنٹرول علاقوں کا سفر کیا تھا۔ یہاں تک کہ انہوں نے داعش کی رکنیت کا سرکاری کارڈ بھی حاصل کیا تاہم وہ چند مہینوں کے بعد وہاں سے چلے گئے اور شمالی عراق میں کرد فورسز کے سامنے ہتھیار ڈال دیے۔
سال 2020 میں چوتھی یو ایس سرکٹ کورٹ آف اپیلز نے ہتھیاروں سے متعلق الزامات کو ختم کر دیا اور سزا کے لیے نئی سماعت کا حکم دیا۔
استغاثہ نے منگل کی سماعت میں جج لیام اوگریڈی پر زور دیا کہ وہ خویس کو دوبارہ 20 سال کی سزا سنائیں۔
اگرچہ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ انہوں نے داعش کے لیے جنگ لڑی تھی، لیکن اس کے مقدمے میں اس بات کا ثبوت موجود تھا کہ انہوں نے رضاکارانہ طور پر خودکش بمبار بننا تھا اور وہ محفوظ گھروں میں زخمی جنگجوؤں کی دیکھ بھال کرتے تھے۔
محمد خویس نے مقدمے کی سماعت میں یہ بھی اعتراف کیا کہ انہوں نے اپنا لیپ ٹاپ اور کئی فون جلا دیے اور داعش سے فرار ہونے سے پہلے رابطے کی معلومات حذف کر دیں۔

32 سالہ محمد خویس مارچ 2016 سے امریکی جیل میں قید ہیں۔ (فائل فوٹو: روئٹرز)

انہوں نے یہ بھی بتایا کہ وہ پریشان تھے کہ لیپ ٹاپ میں ان کے کریڈٹ سکور جیسی مالی معلومات موجود ہیں، جس کے بارے میں جج کا کہنا تھا کہ یہ ناقابل فہم ہے۔
32 سالہ خویس مارچ 2016 سے حراست میں ہیں اور منگل کو انہوں نے دوبارہ داعش کی بیعت کرنے اور اپنے طرز عمل پر معافی مانگی تھی۔
شمالی ورجینیا میں پلے بڑھے اور داعش میں شمولیت سے قبل معذور مسافروں کے لیے میٹرو ایکسیس بس ڈرائیور کے طور پر کام کرنے والے محمد خویس نے کہا کہ ’یہ میرے لیے اب بھی پریشان کن ہے کہ میں نے یہ خوفناک فیصلہ کیا۔‘
خویس کی اٹارنی جیسکا کارمائیکل نے منگل کی سماعت کے بعد ایک بیان میں کہا کہ محمد خویس نے برسوں تک قید میں یہ ظاہر کرنے کے لیے کہ وہ اس معاملے کو سنجیدگی سے لے رہے ہیں، غیر معمولی طور پر سخت محنت کی۔
’مجھے اس کے لیے ان پر فخر ہے اور امید ہے کہ زیر حراست دیگر افراد کو بھی ایسا ہی کر دکھانے کا موقع ملے گا۔‘

شیئر: